پارا چنار میں خواتین پر چھرے والی بندوق سے حملے، ضلع کرم میں خوف و ہراس

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) “خوف نے میری زندگی بدل دی ہے۔ میں یہاں اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ پہلے میں ہم خواتین اساتذہ اور طالبات اسکول پیدل آتے جاتے تھے۔ مگر اب گھر سے اسکول جانے اور واپسی کے لیے گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔”

یہ کہنا تھا ثمینہ (فرضی نام) کا، جن کا تعلق پاکستان کے قبائلی ضلع کرم کے علاقے پاڑا چنار سے ہے۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران پاڑا چنار کے بازار میں آنے والی خواتین کو نامعلوم افراد متعدد بار چھرے والی بندوق سے نشانہ بنا چکے ہیں۔ ان واقعات کے بعد علاقے میں خوف ہے اور مقامی بازاروں میں خواتین کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔

پولیس حکام نے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے 10 سے زیادہ واقعات پیش آ چکے ہیں جب کہ ان واقعات میں چھ کے مقدمات درج کرکے تفتیش بھی شروع کر دی گئی ہے۔

ثمینہ نے مزید بتایا کہ پہلی بار جب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تو نامعلوم افراد کی جانب سے یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ اگر اب کوئی خاتون کسی مرد رشتہ دار کے بغیر بازار میں دیکھی گئی تو ا س کے خلاف اسی قسم کا اقدام ہوگا۔

ان کے بقول اب تک لگ بھگ 10 سے زیادہ واقعات میں والد اور شوہر کی موجودگی میں خواتین پر ایئر گن (چھرے والی بندوق) سے نامعلوم سمت سے فائرنگ کی جا چکی ہے۔ متاثرہ عورتوں میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھیں۔

پاڑا چنار سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی علی افضال کا کہنا تھا کہ ستمبر کے اوائل میں ایک خاتون ایئر گن سے فائر ہونے والی گولی کا نشانہ بنی تھیں جس کے بعد نامعلوم افراد نے بغیر مرد رشتہ داروں کے خواتین کو بازاروں میں آنے سے منع کرنے کی دھمکیاں سوشل میڈیا پر دی تھیں۔

اس حوالے سے قبائلی رہنما عطاء اللہ نے بتایا کہ کئی ایک واقعات ہونے کے بعد عام لوگوں بالخصوص خواتین میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔

خاتون پولیس افسر ثمرین کے مطابق خواتین کو ایئر گن سے نشانہ بنانے کے آخری دو واقعات 12 ستمبر کو پیش آئے تھے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے اس قسم کا کوئی واقعہ تو نہیں ہوا مگر خواتین اب تک خوف کے سبب بازار اور اسپتالوں میں آنے سے کترا رہی ہیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پاڑا چنار میں ستمبر کے پہلے دو ہفتوں کے دوران خواتین کو ایئر گن سے ہراساں کرنے کے اثرات ابھی تک موجود ہیں اور خواتین دکانوں سے سودا خریدنے سے کترا رہی ہیں۔

ان واقعات کے حوالے سے ثمینہ کا کہنا تھا کہ ستمبر کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کے بعد مقامی افراد نے پہلے سوشل میڈیا پر احتجاج کیا بعد ازاں انتظامیہ اور پھر پولیس حکام کو فون کرکے احتجاج کیا گیا۔

افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کا قبائلی ضلع کرم گزشتہ کئی دہائیوں سے عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔

ضلع کرم میں آباد قبائل میں سے بعض شیعہ فرقے اور بعض سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان نہ صرف مذہبی عقائد بلکہ زمین اور غیر آباد جنگلات کے ساتھ ساتھ پہاڑی جائیدادوں پر بھی تنازعات ہیں۔

خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کی ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ مگر بعض مقامی اکابرین دبے دبے الفاظ میں ایک دوسرے مکتبہ فکر کو موردِ الزام ٹہرا رہے ہیں۔

ضلع کرم کے پولیس افسر محمد عمران نے وائس آف امریکہ کو خواتین کو ایئر گن سے ہراساں کرنے کے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام واقعات 12 ستمبر سے قبل ہوئے تھے اور مجموعی طور پر لگ بھگ 10 واقعات ہوئے ہیں اور پانچ چھ کی باقاعدہ طور پر پولیس نے رپورٹ درج کرکے تفتیش شروع کی۔

محمد عمران کے مطابق ابتدائی کارروائی کے دوران پانچ چھ مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا تھا۔ مگر ابھی تک اصل ملزمان تک رسائی حاصل نہیں ہوسکی ہے جس کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان واقعات میں ملوث افراد تک پہنچنے اور انہیں منظرِ عام پر لانے کے لیے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں پاڑا چنار وہ واحد ضلعی ہیڈ کوارٹر تھا جہاں خواتین کے لیے علیحدہ پولیس اسٹیشن قائم کیا گیا تھا۔

پولیس تھانے کی ایس ایچ او ثمرین عامر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان واقعات کے بعد پولیس نے اقدامات کیے ہیں مگر خواتین ابھی تک خوف کا شکار ہیں اور ان کی بازاروں میں آمد میں بہت کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے رہنماؤں اور زعما سے رابطوں کے نتیجے میں اب حالات معمول پر آ رہے ہیں۔

پاڑا چنار شہر کی ایک اور خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس شہر میں پہلے اس قسم کے دہشت زدہ کرنے والے واقعات نہیں ہوئے۔ ان واقعات کے بعد تعلیمی اداروں، دفاتر اور ضروری کاموں کے لیے جانے والی خواتین خوف کا شکار ہیں۔

ان کے بقول اب تو خواتین علاج معالجے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانے سے بھی کترا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 12 ستمبر کو ایک حاملہ خاتون سسر کے ساتھ بازار گئی تھیں جو ایئرگن حملے کا نشانہ بنی۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اب تک ایئرگن حملوں میں جتنی بھی خواتین زخمی ہوئی ہیں ان میں سے زیادہ تر علاج کے لیے اسپتال بھی نہیں گئیں اور نہ ہی ان کے خاندان والوں نےپولیس کو مطلع کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں