کرم: پاراچنار میں خواتین پر ’پراسرار‘ حملے: پولیس کا ایئر گن سے حملہ کرنے والے ایک ملزم کی شناخت کا دعویٰ

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’میں مقامی سکول میں ٹیچر ہوں۔ دو اگست کو آنکھوں میں تکلیف کے باعث میں نے سکول سے چھٹی کی اور اپنی بہن کے ہمراہ پارا چنار میں ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے گئی۔ چیک اپ کے بعد میں اپنی بہن کے ہمراہ واپس گھر جا رہی تھی جب نامعلوم سمت سے آنے والا فائر میری کمر پر لگا جس سے میں زخمی ہو گئی، ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔‘

’میں اپنے بھائی کے ہمراہ نادرا آفس سے واپس پیدل گھر جا رہی تھی جب نامعلوم سمت سے آنے والا فائر میرے بائیں ہاتھ پر لگا جس سے میں زخمی ہو گئی۔ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔‘

’میں اپنے والدین کی اجازت سے سلائی سینٹر میں داخلہ لینے جا رہی تھی جب نامعلوم سمیت سے آنے والا فائر میری کمر کے نچلے حصے میں لگا جس سے میں زخمی ہو گئی۔ ہماری کسی کے ساتھ دشمنی یا عداوت نہیں۔‘

’میں اپنی حاملہ اہلیہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے گیا۔ چیک اپ کے بعد واپسی پر میں اپنے چچا زاد بھائی سے رقم لینے کے لیے ان کی دکان میں گیا جبکہ میری حاملہ اہلیہ باہر ہی کھڑی تھیں۔ جب میں دکان سے باہر نکلا تو معلوم ہوا کہ کسی نامعلوم شخص نے میری اہلیہ پر فائر کیا جو اس کی پسلی کے نیچے لگا۔ میں زخمی اہلیہ کو لے کر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال گیا، جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد ہمیں پشاور ریفر کر دیا گیا کیونکہ میری اہلیہ حاملہ تھیں۔ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی یا عداوت نہیں۔‘

اوپر درج تمام تر واقعات درحقیقت ان چار ایف آئی آرز کے متن ہیں جو اگست اور ستمبر کے مہینوں میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں پیش آئے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے کم از کم 9 واقعات درج ہو چکے ہیں جبکہ ان واقعات میں مبینہ طور پر ملوث گروہ کے ایک شخص کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

’خواتین گھروں سے باہر نہیں نکل رہی‘

پارہ چنار سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ امیر رحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کُل چھ ایسی زخمی خواتین کو لایا گیا تھا جنھیں چھرے والی بندوق یا ایئر گن سے فائر کر کے زخمی کیا گیا تھا۔

امیر رحمان کے مطابق ان میں سے کچھ ایسی زخمی خواتین تھیں جن کے جسم میں چھرہ زیادہ اندر نہیں گیا تھا، چنانچہ اسے نکال دیا گیا جبکہ ایک حاملہ خاتون بھی زخمی ہو کر آئی تھیں جنھیں پشاور ریفر کر دیا گیا تھا کیونکہ حمل کی وجہ سے ان میں پیچیدگی آ سکتی تھی۔

پارہ چنار سے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ ان واقعات کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور خواتین گھروں سے باہر نہیں نکل رہی ہیں۔

ان کے مطابق گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر یہ مواد بھی پھیلایا گیا کہ خواتین بازاروں میں نہ جائیں اور خلاف ورزی کی صورت میں انھیں شاٹ گن سے نشانہ بنایا جائے گا۔

مقامی افراد کے مطابق اس ضمن میں دھمکی آمیز سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا گیا کہ خواتین مردوں کے بغیر گھر سے نہ نکلیں مگر کم سے کم تین واقعات ایسے پیش آئے ہیں جن میں خواتین اپنے والد، شوہر اور والدہ کے ساتھ جا رہی تھیں جب ان پر شاٹ گن یا چھرے والی بندوق سے حملہ کیا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی سکول ٹیچر نے بتایا کہ وہ عام طور پر سکول پیدل آتی جاتی تھیں اور چند ہفتے قبل ایک روز جب وہ واپس آ رہی تھیں تو راستے میں کھڑے چند لڑکوں نے آواز کسی کہ ’شاباش ایئر گن والوں کو اطلاع کرو، یہ پیدل جا رہی ہیں۔‘

ٹیچر کے مطابق اس واقعے کے بعد انھوں نے گاڑی لگوائی اس سے قطع نظر کہ ان کا سکول ان کے گھر کے قریب ہی واقع ہے۔

یاد رہے کہ یہ واقعات ضلع کرم کے شیعہ اکثریتی علاقے میں پیش آ رہے ہیں۔

بی سی سی سے بات کرتے ہوئے تحریک حسینی کے سابق سربراہ علامہ عابد حسین نے بتایا کہ جب اس طرح کی کارروائیاں شروع ہوئیں تو انھوں نے اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر سے وفود کی شکل میں ملاقاتیں کیں جنھوں نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔

علامہ عابد حسین الحسینی نے بتایا کہ پارہ چنار میں جگہ جگہ ناکے اور سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور شناختی کارڈ دیکھے جاتے ہیں لیکن ملزمان گرفتار نہیں ہو رہے۔

پولیس کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال محرم کے بعد پارہ چنار میں خواتین پر اس طرح کے حملے شروع ہوئے ہیں اور اب تک پولیس کے پاس ایسے کم سے کم 9 واقعات درج ہو چکے ہیں۔

ضلع کرم کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر محمد عمران نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے تمام واقعات کی ایف آئی آر درج کی ہیں اور اس بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ان حملوں میں مبینہ طور پر ملوث گروہ کے ایک شخص کی شناخت ہوئی ہے جس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے اور جلد ہی اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔

ڈی پی او محمد عمران کا کہنا تھا کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اور آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں اس کے لیے بازار اور دیگر اہم مقامات پر پولیس کی نفری بڑھا دی گئی ہے جبکہ جگہ جگہ پولیس اہلکار مشتبہ افراد پر کڑی نگرانی رکھے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 12 ستمبر کے بعد اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

پولیس حکام کے مطابق پارہ چنار میں لوگ تعلیم حاصل کرنے میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور امکان ہے کہ یہ کام بظاہر ان لوگوں کو تعلیم سے روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں