قاسم سلیمانی کے مجسمےکے باعث سعودی فٹبال کلب کا ایرانی ٹیم سے میچ کھیلنے سے انکار

تہران (ڈیلی اردو) ایران میں ہونے والے ایشین فٹبال کنفیڈریشن (اے ایف سی) چیمپیئنز لیگ کے میچ میں اسٹیڈیم میں جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کے باعث سعودی کلب الاتحاد نے کھیلنے سے انکار کردیا۔

سعودی میڈیا کے مطابق ایران کے شہر اصفہان میں آج سعودی فٹبال کلب الاتحاد اور ایرانی فٹبال کلب سیفہان کے درمیان اے ایف سی چیمپیئز لیگ کا میچ کھیلا جانا تھا۔

سعودی میڈیا کا کہنا ہےکہ سعودی کلب نے اسٹیڈیم میں قاسم سلیمانی کے مجسمے کے سبب میدان میں داخل ہونے سے انکار کردیا جس کے باعث میچ منسوخ ہوگیا۔

عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی فٹبال کلب کی ٹیم کے انکار کے باعث میچ تاخیر کا شکار ہوا تاہم انتظامیہ نے قاسم سلیمانی کا مجسمہ ہٹانے سے انکار کردیا۔

رپورٹ کے مطابق سعودی کلب الاتحاد کی ٹیم اسٹیڈیم سے ہی وطن واپسی کے لیے ائیرپورٹ روانہ ہوگئی۔

غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایشین فٹبال کنفیڈریشن آج رات بیان جاری کرے گی۔

جنرل سلیمانی کون تھے؟

ایران میں رہبرِ اعلیٰ کے بعد جنرل سلیمانی سب سے بااختیار شخصیت تصور کیے جاتے تھے۔

پاسداران انقلاب کی ملک سے باہر مسلح کارروائیاں کرنے والے دستوں القدس فورس کے کمانڈر ہونے کے ناطے وہ مشرق وسطی میں ایران کی پالیسیوں کے روح رواں اور معمار تھے۔

القدس فورس کی حفیہ کارروائیوں کی رہنمائی کرنے، مالی وسائل اور اسلحہ فراہم کرنے کے علاوہ خفیہ معلومات مہیا کرنے اور اتحادی حکومتوں اور حزب اللہ، حماس اور اسلامی جہاد جیسی مسلح تنظیموں کی معاونت کرنے کی ذمہ دارایاں وہ نبھاتے تھے۔

صدر ٹرمپ نے جنرل سلیمان کو دنیا بھر میں اول نمبر کا دہشت گرد قرار دیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے جنرل سلیمانی پر الزام لگایا تھا کہ وہ گزشتہ 20 برس میں سینکڑوں امریکی شہریوں اور فوجیوں کو نشانہ بنانے، زخمی اور قتل کرنے کے ذمہ دار ہیں اور عراق میں گزشتہ سال دسمبر میں ایک راکٹ حملے میں ایک امریکی ٹھیکہ دار کی ہلاکت کے پیچھے بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔

جنرل سلیمانی کو کیسے ہلاک کیا گیا؟

ایران کے یہ اعلی ترین جنرل اس سال جنوری کی تین تاریخ کو شام سے ایک جہاز کے ذریعے بغداد پہنچے تھے۔ وہ عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاء تنظیموں کے سرکردہ اہلکاروں کے ہمراہ ہوائی اڈے سے جا رہے تھے جب ان کے قافلے کو ایک راکٹ سے نشانہ بنایا گیا جو ایک امریکی ڈرون سے داغہ گیا تھا۔

جب ان کا قافلہ امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنا اس وقت عراق میں شیعہ گروہوں کی ایک تنظیم پاپولر موبیلائزیش فرنٹ کے سربراہ عبدالمہدی مہندس بھی ان کے ہمراہ تھے۔

صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انھوں نے اس ڈرون حملے کی منظوری دی تھی تاکہ امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کے خطرے کو ٹالا جا سکے۔

انھوں نے جنرل سلیمانی پر الزام لگایا کہ وہ امریکی سفارت کاروں اور فوجی اہلکاروں پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اس لیے انھیں ختم کر دیا گیا۔

پانچ دن بعد ایران نے عراق میں دو فوجی اڈوں پر جہاں امریکی فوجی موجود تھے، بلاسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔ ان حملوں میں کوئی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا تھا لیکن سو سے زیادہ فوجی اعصابی طور پر متاثر ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں