چمن سرحد پر فائرنگ کا واقعہ، پاکستان کا افغان طالبان سے ملزم کی حوالگی کا مطالبہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن سرحد پر فائرنگ کے واقعے میں ایک بچے سمیت دو افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ پاکستان نے افغان طالبان سے ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔

واقعے کی سوشل میڈیا پر ایک سی سی ٹی وی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے پاکستان کی فورسز کے اہلکار اپنی حدود میں موجود ہیں۔ اس دوران سرحد پار تعینات افغان طالبان کی فورسز کا ایک مسلح جنگجو پاکستانی سرحدی محافظوں پر فائرنگ شروع کر دیتا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فائرنگ اس وقت ہوئی جب ایک راہ گیر پاکستانی حدود سے افغانستان میں داخل ہوتا ہے جب کہ ایک پاکستانی سرحدی اہلکار وہیں قریب بیٹھا ہے۔

فائرنگ کے بعد سیکیورٹی اہلکار ایک جانب دوڑ لگا دیتا ہے جب کہ راہ گیر جان بچانے کے لیے افغان حدود کی جانب بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔

جس سی سی ٹی وی کیمرے کی ویڈیو سامنے آئی ہے وہ پاکستان کی حدود میں نصب ہے۔ یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ یہ ویڈیو کس نے جاری کی ہے۔

فائرنگ کے واقعے کے بارے میں پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چمن میں بابِ دوستی پر پیدل چلنے والوں کی گزرگاہ پر سرحد پار سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک 12 سالہ بچے سمیت دو پاکستانی شہری ہلاک اور ایک بچہ زخمی ہوا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی قسم کے فائرنگ کے تبادلے سے گریز کیا تاکہ اس کے نتیجے میں مزید کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔

زخمی بچے اور ہلاک ہونے والے دونوں افراد کی لاشوں کو چمن کے سرکاری اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے اس معاملے پر افغانستان کے حکام سے رابطہ کیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ فائرنگ کرنے والے شخص کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

چمن کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اطہر عباس نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ چمن سرحد پر فائرنگ کا واقعہ بدھ کی شام لگ بھگ چار بجے پیش آیا تھا جس کے بعد سرحد پر فورسز کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔

ڈی سی کے مطابق باب دوستی کو پیدل آمد و رفت کے لیے کچھ دیر بند کرنے کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔

پاکستان کے نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات کسی صورت قابلِ قبول نہیں کیوں کہ ایسے واقعات دو طرفہ تعلقات پر منفی اثرات مر تب کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان میں حالیہ مہینوں میں تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد کی جاب سے مسلسل الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کی وجہ افغانستان میں موجود کالعدم تنظیموں کے جنگجوؤں کو حاصل آزادی اور پاکستان میں جرائم میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مسائل اور ان کا حل اندرونی معاملہ ہے، دوسروں کو اس کا موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے۔

افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک میں کئی بار سرحدی تنازعات کے سبب بارڈرز کرانگ معطل ہو چکی ہے۔

گزشتہ ماہ چھ ستمبر کی صبح پاکستان اور افغانستان کی سرحدی فورسز کے درمیان دوطرفہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد طورخم سرحد کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔بعد ازاں نو دن تک یہ سرحد بند رہی اور اس مصروف ترین سرحد کو 15 ستمبر کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے کھولا گیا تھا۔

اس سے پہلے فروری میں سیکیورٹٰی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد لگ بھگ ایک ہفتے کے لیے طور خم کی سرحد کو دو طرفہ آمدورفت کے لیے بند کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے طالبان برسرِ اقتدار ہیں جب کہ ان کی پاکستان کی فورسز کے ساتھ ،سرحد پر لگائی گئی باڑ سمیت کئی معاملات پر مڈ بھیڑ ہو چکی ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آںے کے بعد متعدد افغان شہریوں نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ البتہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں