امریکی وزیر دفاع اور پاکستان آرمی چیف کی فون پر گفتگو، ممکنہ موضوعات پر ماہرین کا تجزیہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے فون پر بات کی ہے جس میں مختلف امور پر بات چیت ہوئی ہے۔

محکمہ دفاع کے پریس سیکرٹری بریگیڈ یئر جنرل پیٹ رائڈر کے نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر دفاع اور جنرل منیر نے باہمی دلچسبی کے امور اور خطے میں حال ہی میں رونما ہونے والی پیش رفت پر گفتگو کی۔

پاکستان ملٹری کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ابھی تک فون پر ہونے والی اس بات چیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

واشنگٹن میں پاکستانی امور پر کام کرنے والے ماہرین اس گفتگو کو کئی حوالوں سے اہم سمجھتے ہیں کیونکہ پاکستان اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جبکہ ملک میں دہشت گرد ی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

امریکی دارالحکومت میں تھنک ٹینک دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پاکستان افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ اس بات چیت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک اہم موضوع بحث رہا ہوگا۔

اس سلسلے میں انہوں نے نوٹ کیا کہ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔

ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ کیونکہ امریکہ کامفاد ایک مستحکم پاکستان میں ہے، اس لیے وزیر دفاع اور پاکستان کے آرمی چیف کی بات چیت میں یہ نکتہ بھی شامل ہوا ہو گا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے امریکہ پاکستان کی کیا مدد کر سکتا ہے۔

میرے خیال میں علاقائی واقعات سے مراد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور پاکستان اور افغانستان میں برھتی ہوئی کشیدگی ہے اور اس پر یقینی طور پر تبادلہ خیال ہوا ہو گا۔-

واشنگٹن میں پولی ٹیکٹ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے تحقیقی ادارے کے سربراہ عارف انصار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ تناظر میں وہ امریکی وزیر دفاع اور پاکستان کے آرمی چیف کی بات چیت کو انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔

کیونکہ ان کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک عبوری حکومت ہے جس کا کام صرف الیکشن کروانا ہے۔ اس صورت میں ماضی کی طرح حال میں پاکستان سے گفتگو کا اہم ترین ذریعہ ملٹری چینل ہے۔

عارف انصار کے مطابق پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان اور حال ہی میں داعش کی جانب سے حملے پاکستان میں جاری عدم استحکام کو مزید بگاڑ سکتے ہیں اور امریکی وزیر دفاع نے اس مسئلے پر پاکستان کا تجزیہ جاننے کی کوشش کی ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ان غیر معمولی حالات میں جبکہ ملک کو گھمبیر مسائل کا سامنا ہے اور کوئی منتخب حکومت نہیں ہے اس امکان کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت اور الیکشن کے بارے میں جاننا جاہتا ہو۔

اس ضمن میں انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ کے کئی بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن پاکستان میں جمہوریت اور شفاف انتخابات کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ سابق وزیر اعظم عمران خان زیر حراست ہیں جبکہ انتخابات کی کوئی حتمی تاریخ بھی نہیں دی گئی ہے۔ لہذا امریکہ کو پاکستان استحکام اور اس سےمنسلک جمہوریت کے مستقبل میں دلچسبی ہے۔

وسیع طر تناظر میں حالات کو دیکھتے ہوئے عارف انصار نے کہا کہ جی ٹونٹی کے اجلاس کے موقع پر بھارت کو مشرق وسطی اور یورپ سے ملانے کی راہ داری اور اس کے چین پاکستان اقتصادی راہداری پر اثرات اور یوکرین جنگ بھی زیر بحث آسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں