ناگورنو کاراباخ پر حملہ: اسرائیل نے خفیہ طور پر آذربائیجان کی مدد کیوں کی؟

تل ابیب (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) آذر بائیجان 19 ستمبر کو ناگورنو کاراباخ پر حملے کے لیے تیاریاں کررہا تھا۔ اس سے 24 گھنٹے قبل جنوبی اسرائیل کی ایئر بیس اور ناگورنو کاراباخ کے قریب ایک فضائی اڈے کے درمیان کارگو طیاروں کی پروازیں بڑھ گئیں۔

فلائیٹ ٹریکنگ ڈیٹا اور آرمینیائی سفارت کاروں کو ملنے والی معلومات سے ان پروازوں کی تصدیق ہو گئی تھی جس کے بعد آرمینیا کے دار الحکومت یریوان میں حکام کی تشویش بڑھ رہی تھی۔ آرمینیا پہلے ہی اسرائیل اور آذربائیجان کے اسٹریٹجک تعلقات پر برہم تھا۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے جنگ کے دوران کارگو طیاروں سے اسرائیل خفیہ طور پر آذربائیجان کو ہتھیار فراہم کررہا تھا۔ ان ہتھیاروں کی وجہ سے ناگورنو کاراباخ میں آرمینیائی علیحدگی پسندوں کو شکست ہوئی اور اس خطے پر آذربائیجان کا کنٹرول بحال ہو گیا۔

اسرائیل میں آرمینیا کے سفیر ارمان اکوپیئن نے گزشتہ ہفتے اپنے بیان میں بھی تل ابیب کی جانب سے باکو کو جنگ میں مدد فراہم کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری سب سے بڑی پریشانی وہ ہتھیار ہیں جنھیں ہمارے لوگوں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے بات کرتے ہوئے ارمان اکوپیئن نے کہا کہ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اسرائیل ناگورنو کاراباخ میں اپنے آبائی گھروں سے بے دخل ہونے والوں کے لیے بھی تشویش کا اظہار کرنے سے گریز کررہا ہے۔

رواں برس ستمبر میں آذربائیجان کی شروع کی گئی بھرپور کارروائی میں بھاری توپ خانے کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور ترکیہ کے فراہم کردہ راکٹ لانچر بھی استعمال کیے گئے۔

ماہرین کے مطابق ان ہتھیاروں کی وجہ سے آذربائیجان کو ناگورنو کاراباخ میں لڑنے والے آرمینیائی علیحدگی پسندوں پر برتری حاصل ہوئی اور وہ اس خطے کے مستقبل سے متعلق باکو سے بات چیت پر آمادہ ہو گئے۔

حکام کے مطابق آذربائیجان کے حملے میں 200 سے زائد آرمینیائی ہلاک ہوئے جن میں سے زیادہ تعداد جنگجوؤں کی تھی۔ لڑائی کے دوران لگ بھگ 200 آذربائیجانی فوجی زخمی ہوئے۔

ناگورنو کاراباخ چاروں طرف سے آذربائیجان میں گھرا ہوا ہے جسے جغرافیائی اعبتار سے ’انکلیو‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ 44 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس خطے میں لگ بھگ ایک لاکھ 20 ہزار آرمینیائی آباد تھے جن میں سے 80 فی صد گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یہ علاقہ خالی کر گئے ہیں۔

آذربائیجان نے جنگ بندی کے بعد اس علاقے میں آرمینیائی نسل کے باشندوں کے حقوق کی پاس داری کا وعدہ کیا ہے۔

ناگورنو کاراباخ سے آرمینیائی باشندوں کے انخلا کو آرمینیا نے ’نسل کُشی‘ قرار دیا ہے تاہم آذربائیجان سختی سے ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔

اسرائیل نے آذربائیجان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر آرمینیا کی تشویش سے متعلق ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ البتہ رواں برس جنوری میں اسرائیلی وزیرِ دفاع یوا گیلانٹ نے باکو کے دورے کے موقع پر ’دہشت گردی کے خلاف لڑائی‘ میں دونوں ممالک کے تعاون کو سراہا تھا۔

اسرائیل آذربائیجان کا اتحادی کیوں؟

آذربائیجان اسرائیل کو تیل فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی ایران کے خلاف اس کا اتحادی ہے۔ اس کے علاوہ آذربائیجان اسرائیلی ہتھیاروں کا خریدار بھی ہے۔

آذربائیجان میں اسرائیل کے سابق سفیر آرکادے ملمین کے مطابق ایران کو محدود رکھنے کے لیے ہماری باکو سے شراکت داری اسٹرٹیجک نوعیت کی ہے۔

ایک دور میں اسرائیل کے پاس توانائی کے ذخائر نہیں تھے تاہم بحیرہ روم میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد اس کا غیر ملکی ذرائع پر انحصار کم ضرور ہوا۔ لیکن آذربائیجان آج بھی اسرائیل کی 40 فی صد ایندھن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔

اسرائیل نے 90 کی دہائی میں کرغزستان، آذربائیجان اور ترکیہ کے درمیان تیل کی ترسیل کے لیے پائپ لائن کے منصوبے پر بھی کام کیا تھا اور اس کے لیے باکو کا سرمایہ بھی اسرائیل کے پاس رہا۔

آذربائیجان ایران کی طرح شیعہ اکثریتی ملک ہے۔ تاہم ایران آرتھوڈوکوس مسیحی ملک آرمینیا کو مدد فراہم کرتا ہے۔ ایران کا الزام ہے کہ آذر بائیجان نے خفیہ آپریشنز کے لیے اسرائیل کو اڈے فراہم کر رکھے ہیں جب کہ باکو ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

آرمینیا کے سابق سفارت کار تگران بالایان کا کہنا ہے کہ ہم پر یہ واضح ہے کہ اسرائیل کے لیے ایران پر نظر رکھنے کے لیے آذربائیجان میں اپنی فوج رکھنا ضروری ہے۔

اسرائیل اور آذربائیجان کے قریبی تعلقات کا فائدہ اسرائیلی فوجی کانٹریکٹرز کو بھی ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق 2016 اور 2020 میں آذربائیجان کو اس کی ضرورت کا 70 فی صد اسلحہ بارود فراہم کیا۔ اسی اسلحے کی وجہ سے آذربائیجان کو آرمینیا پر برتری حاصل ہوئی اور اسرائیل کی اسلحہ سازی کی صنعت کو بھی ترقی ملی۔

اسٹاک ہوم میں قائم ہتھیاروں کی فروخت پر نظر رکھنے والے ادارے ‘انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ’ سے وابستہ محقق پیٹر ویزیمان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ہتھیاروں نے آذربائیجان کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے فراہم کردہ ڈرونز، زمین سے فضا میں مار کرنے والے باراک 8 میزائل نے زمین اور فضا میں آذربائیجان کو آرمینیا پر برتری دی۔

اسرائیل کے تیار کردہ خود کُش ڈرونز نے اندر تک مختلف علاقوں میں کارروائیوں میں جو مدد فراہم کی اس کا اعتراف آذربائیجان کے وزیرِ اعظم الہام علیوف نے بھی کیا۔

ستمبر کے آغاز ہی سے آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان کارگو پروازوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

اسرائیلی اخبار ’ہرٹز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2016 سے 2020 کے دوران آذربائیجان سے 92 ملٹری کارگو اسرائیل گئے اور واپس آئے۔ اسرائیل اور آذربائیجان دونوں ہی نے اس رپورٹ پر تبصرے سے گریز کیا ہے۔

‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق آذربائیجان کی ایک مطلق العنان حکومت کو آرمینیائی باشندوں کے خلاف ہتھیار فراہم کرنے پر اسرائیل میں بحث کا آغاز ہوا۔ اس کی اسلحے کی فروخت کی پالیسیوں پر بھی سوال اٹھائے گئے۔ تاہم دنیا میں ہتھیار بنانے والے 10 بڑے ممالک میں سے اسرائیل اور روس میں انسانی حقوق کی بنیاد پر اسلحے کی برآمد روکنے کی پالیسیاں نہیں ہیں۔

تاہم اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ اسی بنیاد پر اپنی حکومت کو آذربائیجان سے اسلحے کی تجارت پر تنقید کرتے ہیں۔

پس منظر

ناگورنو کاراباخ کا تنازع تقریباً 100 سال پرانا ہے۔ اس علاقے میں سو سال پہلے بھی آرمینین کرسچن کمیونٹی کی اکثریت تھی جو اسے ایک آزاد ریاست بنانا چاہتے تھے۔

اس وقت یہ خطہ روس کی سلطنت میں شامل تھا۔1917 میں روس میں بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا اور بالشویک انقلاب کے بعد ایک کمیونسٹ ریاست سوویت یونین قائم ہوئی تو آرمینیا اور آذربائیجان دونوں سوویت یونین میں شامل ہو گئے۔

سوویت یونین نے کاراباخ کے علاقے کو آذربائیجان میں شامل کر دیا لیکن ساتھ ہی اسے مکمل خود مختار ریاست کی حیثیت بھی دی۔ اسی دور میں اسے ناگورنو کاراباخ کا نام دیا گیا۔

1991 میں جب سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے تو ناگورنو کاراباخ نے خود کو ایک آزاد ریاست قرار دے دیا۔ اس پر کاراباخ کو علیحدہ ملک بنانے کے حامی آرمینیائی گروپس اور آذربائیجان کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔

اسے پہلی کاراباخ جنگ کہا جاتا ہے جس میں تقریباً 30 ہزار لوگ مارے گئے اور لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ بالآخر 1994 میں یہ علاقہ آرمینینز کے کنٹرول میں آ گیا۔

انہوں نے اسے ایک علیحدہ ملک بنانے کا اعلان کر دیا جسے آرتساک کا نام دیا گیا۔ آرمینینز نے یہاں اپنی حکومت بھی قائم کر لی جسے آرمینیا کی حمایت حاصل تھی۔

اس کے ساتھ ہی آرمینینز نے کاراباخ سے باہر لاچین کوریڈور کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا تاکہ آرمینیا سے زمینی راستہ مل جائے۔

لیکن عالمی سطح پر آرمینیائی باشندوں کے کنٹرول کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اب تک کاراباخ کو آذربائیجان کا ہی حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ پھر 1994 سے 2020 تک یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا۔ لیکن پھر 2020 میں دوسری کاراباخ جنگ کا آغاز ہوا۔

آذر بائیجان نے ناگورنو کاراباخ کا علاقہ حاصل کرنے کے لیے ترکیہ کی مدد سے فوجی کارروائی کا اغاز کیا۔

یہ جنگ 44 دن تک جاری رہی جس کے بعد آرمینیا ناگورنو کاراباخ اور اس کے آس پاس کے علاقے آذربائیجان کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گیا۔ جنگ بندی کے لیے کاراباخ میں روس کے 2000 امن فوجیوں کو تعینات کیا گیا تھا تاکہ آرمینیائی باشندوں کا تحفظ کیا جا سکے۔

آذربائیجان نے جنگ بندی کے بعد شروع شروع میں تو لاچین کوریڈور کھلا رکھا ہوا تھا تاکہ کاراباخ اور آرمینیا کے درمیان آمدورفت ہوتی رہے۔ لیکن دسمبر 2022 میں اس نے اس علاقے کی ناکہ بندی کر دی جس سے کاراباخ کی سپلائی لائن کٹ گئی۔

پھر 18 ستمبر کو آذربائیجان نے کاراباخ میں آرمینیائی فورسز کے خلاف کارروائی شروع کی اور صرف چار دن بعد 22 ستمبر کو آرمینین علیحدگی پسند فورسز نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس ریجن میں ایک لاکھ 20 ہزار کی آبادی تھی جن میں سے زیادہ تر لوگ اس اقدام کے بعد نقل مکانی کر چکے ہیں۔

ناگورنو کاراباخ میں آرمینینز علیحدگی پسندوں کی جو حکومت قائم تھی اس نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ یکم جنوری 2024 سے اسے تحلیل کردیا جائے گا اور تب تک اس خطے کے دوبارہ آذربائیجان میں انضمام کے لیے مذاکرات ہوں گے۔ یعنی اب یہ علاقہ ایک طرح سے مکمل طور پر آذربائیجان کے کنٹرول میں آجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں