شام میں ملٹری گریجویشن تقریب پر ڈرون حملہ، سویلین سمیت 120 افراد ہلاک، تقریباً 250 زخمی

دمشق (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) شام کے شہر حمص میں فوجی افسروں کیلئے منعقد ہونے والی گریجویشن کی ایک تقریب پر ڈرون حملے کے نتیجے میں 120 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے شام کے سیکیورٹی کے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام کے وزیرِ دفاع بھی تقریب میں شریک تھے لیکن حملے سے چند ہی منٹ پہلے ہی وہاں سے روانہ ہو گئے تھے۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کےمطابق شام کی وزارتِ صحت کے مطابق فوجی تقریب میں حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں فوجیوں سمیت سویلین بھی شامل ہیں جب کہ 240 افراد زخمی ہیں جن میں سے کئی کی حالت تشویش ناک ہے۔

شام کی فوج کے مطابق ڈرون حملہ اس وقت ہوا جب فوجی افسران کی گریجویشن تقریب ختم ہونے والی تھی جس میں بڑی تعداد میں نوجوان افسر اور ان کے اہلِ خانہ شریک تھے۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس قتلِ عام کا ذمہ دار کون ہے۔

شام کی حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جو جمعے سے شروع ہو گا۔

برطانیہ میں قائم جنگ کی نگرانی کرنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ اس حملے میں تقریباً 120 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 30 عام شہری اور باقی فوجی ہیں۔

شام کی وزارت صحت نے پہلے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 81 بتائی تھی اور 239 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی تھی، تاہم وزارت نے کہا تھا کہ یہ تعداد حتمی نہیں ہے۔ بعد میں ملک کے انسانی حقوق کے کمیشن نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں 120 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی۔

ہلاک ہونے والوں میں چند خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

شامی فوج اس طرح کے حملوں کے لیے ان انتہا پسندوں پر الزام عائد کرتی ہے جنہیں اس کے بقول جانی پہچانی بین الاقوامی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ تاہم فوج نے کسی ایک خاص قوت کی نشاندہی نہیں کی۔

شامی فوج نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ان دہشت گرد تنظیموں کو پوری قوت سے اور فیصلہ کن انداز میں جواب دے گی۔

ڈرون حملے کے بعد شامی حکومت نے باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی صوبے ادلیب کے قصبوں پر بمباری کی۔ اس کارروائی میں ہونے والے نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

شام کے شمال مغربی علاقے میں کام کرنے والی ایک رضاکار سول ڈیفنس تنظیم وائٹ ہلمٹس کے مطابق جمعرات کو اوّل وقت حکومت نے علاقے میں ایک اور گاؤں پر شیلنگ کی جس میں ایک گھر نشانہ بنا اور ایک معمر خاتون ، اس کے چار بچے اور امدادی کارکن مارے گئے جب کہ نو شہری زخمی بھی ہوئے۔

شام کے شمال مغربی حصے پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں اور ترکیہ کے حمایت یافتہ اپوزیشن کےجنگجوؤں کا قبضہ ہے۔ جو لوگ وہاں رہتے ہیں ان میں سے زیادہ تر بہت غریب ہیں اور اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں جمعرات ہی کے روز، شمال مشرقی شام کے الحسکہ اور قامشلی صوبوں میں، آئل پروڈکشن پلانٹس ، بجلی کے سب اسٹیشنوں اور ایک بند پر ڈرون حملے کیے گئے۔ ان علاقوں پر امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کا کنٹرول ہے۔

مقامی حکام کا کہنا ہے بمباری میں ایس ڈی ایف کے چھ جنگجو اور دو شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو حمص میں ملٹری اکیڈمی کی گریجویشن کی تقریب پر ڈرون حملے اور اس کے بعد ہونے والی جوابی بمباری میں لوگوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔

حمص سن 2017 سے بشار الاسد کی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔

شام میں سن 2011 میں صدر بشار الاسد کی جانب سے جمہوریت کے حامی پرامن مظاہروں پر پرتشدد کارروائی کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تقریباً 6.8 ملین لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں، جب کہ دیگر چھ ملین مہاجرین بیرون ملک پناہ کے متلاشی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں