حماس کا بڑا حملہ: اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں کیوں ناکام ہوئیں؟

تل ابیب (ڈیلی اردو/اے پی) اسرائیل پر فلسطینوں کے ایک عسکری گروپ حماس کی جانب سے زمینی فضائی اور بحری راستوں سے ایک بڑے حملے میں، جس میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات ہوئے اور لگ بھگ 48 گھنٹے گزرنے کےبعد بھی اسرائیل کے اندر جھڑپیں جاری تھیں، انٹیلی جینس کے حوالے سے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں نے دنیا بھر میں اپنی شناخت انتہائی مستعد ، فعال اور باخبر ایجنسیوں کے طور پر کروائی ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف اپنے خطے میں ہی نہیں بلکہ علاقے سے باہر نکل کر بھی اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے کامیاب کارروائیاں کرتی ہیں۔

جس کا ایک واضح ثبوت ایران کے اندر ایک اہم جوہری سائنس دان کا قتل ہے، جس کا الزام ایران اسرائیلی ایجنسیوں پر لگاتا ہے۔ اس سے ملتے جلتے کئی اور الزامات بھی ماضی میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں پر لگ چکے ہیں۔

اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جاسوسی کے جدید ترین آلات سے لیس ہیں اور بالخصوص خطے کی ہر چیز پر ان کی نظر ہے۔فلسطین کے اندر تو انہیں یہ تک معلوم ہے کہ ہر اینٹ کے پیچھے کیا ہے۔

انہیں فلسطینی عسکری گروپوں کی زیر زمین سرنگوں کے بارے میں یہ آگاہی بھی حاصل ہے کہ وہ کہاں سے گزرتی ہیں اور ان کے ذریعے کیا کچھ ہوتا ہے۔ جنہیں وہ نشانہ بنا کر عسکریت پسندوں کے منصوبے ناکام بناتے رہتے ہیں۔

غزہ طویل عرصے سے اسرائیل کے محاصرے میں ہےاور وہاں کے ایک ایک لمحے سے وہ باخبر ہیں۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ حماس گروپ کے ارکان ایک بڑا حملہ کر کے اسرائیل کے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے ہزاروں راکٹ فائر کیے۔سینکڑوں اسرائیلی مارے گئے، املاک کو نقصان پہنچا، انہیں یرغمال بنایا۔

بقول ماہرین کےیہ سب کچھ آن واحد میں تو نہیں ہوا۔ اتنے بڑے حملے کی تیاری میں اگر برسوں نہیں تو مہینوں ضرور لگے ہوں گے۔ اس کے لیے وسائل بھی کہیں باہر سے ہی مہیا ہوئے ہوں گے۔یہ سب کچھ اسرائیل کے زیر محاصرہ فلسطینی علاقے میں ہوتا رہا لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوف امیڈور نےانٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ثابت کرتا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی انٹیلی جنس کی صلاحیتیں اچھی نہیں تھیں۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا ہے کہ فوج کو عوام کے سوالوں کا جواب دینا ہے لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ لیکن ابھی ہمیں ( عسکریت پسندوں سے) لڑنا اور تحقیقات کرنا ہے۔

اگر خطے کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو 2007 میں غزہ پر حماس کے قبضے کے بعد سے اسرائیل اس علاقے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کےانٹیلی جنس ادارے معلومات کے حصول کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی مدد لے رہے ہیں۔

فلسطینوں کی تمام کمیونیکیشنز ایجنسیوں کے ریڈار سے ہو کر گزرتی ہے۔پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ حماس اپنے منصوبوں کو اتنی کڑی نگرانی کے باوجود بھی پوشیدہ رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔

ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورم کے صدر اور اسرائیل کے ایک سابق جنرل عامر ایویوی کہتے ہیں کہ ایجنسیوں نے معلومات حاصل کرنے کے لیے غزہ میں زمین پر اپنی موجودگی کی بجائےتیکنیکی اور جدید ذرائع پر زیادہ انحصار شروع کر دیا تھا اور دوسری طرف وہ (حماس) پتھر کے زمانے میں واپس چلے گئے تھے۔

انہوں نے پتھر کے زمانےکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندوں نے فون یا کمپیوٹر کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور وہ اپنی حساس معلومات چھپانے کے لیے قدیم زمانے کے طریقے استعمال کرنے لگے تھے جو جدید آلات کی پکڑ میں نہیں آتے۔ وہ زیر زمین چلے گئے تھے۔

ایویوی کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کی ایک حقیقی تصویر بنائے میں ناکام رہیں اور انہیں حماس کے ارادوں کا علم نہیں ہو سکا۔ ایجنسیاں یہ سمجھتی رہیں کہ حماس گروپ غزہ کی معیشت کو ترقی دینے، اور اپنے علاقے کے 23 لاکھ فلسطینوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے لیکن وہ اندر ہی اندر تباہی کے منصوبے کو آگے بڑھا رہا تھا۔

ایک سیکیورٹی تجزیہ کار اموس ہیرل نے روزنامہ ہارٹز میں اپنے آرٹیکل میں ایک اور پہلو کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں اسرائیل نے لگ بھگ 18 ہزار فلسطینی کارکنوں کو غزہ سے اسرائیل کے اندر آ کر کام کرنے کی اجازت دی، جس سے ان کی آمدنیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

اس اقدام کا مقصد غالباً معاشی فوائد فراہم کر کے فلسطینیوں کو امن کی جانب راغب کرنا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ لیکن عملی طور پر ہوا یہ کہ اس کی آڑ میں حماس کے اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کارکن اچانک حملے کے لیے خفیہ طور پر تیاری کرتے رہے جس کا تباہ کن نتیجہ سامنے آیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی کا ایک اور سبب نتن یاہو کی حکومت پر کمزور گرفت اور ملک میں جاری سیاسی معاملات بھی بنے ہیں۔

خبررساں ادارے نے ایک مصری انٹیلی جنس اہل کار کے حوالے سے، جو اکثر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، کہا ہے کہ ’’ہم نے اسرائیل کو خبردار کر دیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے‘‘۔

اے پی کا کہنا ہے کہ مصری اہل کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے انہیں خبردار کر دیا تھا کہ بہت جلد ایک بڑا دھماکہ ہونے والا ہے۔ لیکن انہوں نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ اندرونی سیاسی مسائل اور دباؤ کی وجہ سے اسرائیل کی توجہ مغربی کنارے پر مرکوز ہو گئی تھی۔ کیونکہ نتن یاہو کی حکومت مغربی کنارے کے یہودی آبادکاروں کے حامیوں پر مشتمل ہے۔

وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر کی وجہ سے حکومت پر سیکیورٹی کریک ڈاؤن کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اس دباؤ کی وجہ سے حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی توجہ غزہ سے ہٹ کر مغربی کنارے کی جانب ہو گئی تھی، جس کا فائدہ حماس نے اٹھایا۔

اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسیاں ممکن ہے کہ اپنی ناکامیوں پر جلد قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس بڑی کارروائی سے سات عشروں سے سلگتے ہوئےاس خطے میں جو طوفان برپا ہوا ہے، اس سے عالمی امن کے لیے نئے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔حماس کا بڑا حملہ: اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں کیوں ناکام ہوئیں؟

اسرائیل پر فلسطینوں کے ایک عسکری گروپ حماس کی جانب سے زمینی فضائی اور بحری راستوں سے ایک بڑے حملے میں، جس میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات ہوئے اور لگ بھگ 48 گھنٹے گزرنے کےبعد بھی اسرائیل کے اندر جھڑپیں جاری تھیں، انٹیلی جینس کے حوالے سے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں نے دنیا بھر میں اپنی شناخت انتہائی مستعد ، فعال اور باخبر ایجنسیوں کے طور پر کروائی ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف اپنے خطے میں ہی نہیں بلکہ علاقے سے باہر نکل کر بھی اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے کامیاب کارروائیاں کرتی ہیں۔

جس کا ایک واضح ثبوت ایران کے اندر ایک اہم جوہری سائنس دان کا قتل ہے، جس کا الزام ایران اسرائیلی ایجنسیوں پر لگاتا ہے۔ اس سے ملتے جلتے کئی اور الزامات بھی ماضی میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں پر لگ چکے ہیں۔

اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جاسوسی کے جدید ترین آلات سے لیس ہیں اور بالخصوص خطے کی ہر چیز پر ان کی نظر ہے۔فلسطین کے اندر تو انہیں یہ تک معلوم ہے کہ ہر اینٹ کے پیچھے کیا ہے۔

انہیں فلسطینی عسکری گروپوں کی زیر زمین سرنگوں کے بارے میں یہ آگاہی بھی حاصل ہے کہ وہ کہاں سے گزرتی ہیں اور ان کے ذریعے کیا کچھ ہوتا ہے۔ جنہیں وہ نشانہ بنا کر عسکریت پسندوں کے منصوبے ناکام بناتے رہتے ہیں۔

غزہ طویل عرصے سے اسرائیل کے محاصرے میں ہےاور وہاں کے ایک ایک لمحے سے وہ باخبر ہیں۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ حماس گروپ کے ارکان ایک بڑا حملہ کر کے اسرائیل کے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے ہزاروں راکٹ فائر کیے۔سینکڑوں اسرائیلی مارے گئے، املاک کو نقصان پہنچا، انہیں یرغمال بنایا۔

بقول ماہرین کےیہ سب کچھ آن واحد میں تو نہیں ہوا۔ اتنے بڑے حملے کی تیاری میں اگر برسوں نہیں تو مہینوں ضرور لگے ہوں گے۔ اس کے لیے وسائل بھی کہیں باہر سے ہی مہیا ہوئے ہوں گے۔یہ سب کچھ اسرائیل کے زیر محاصرہ فلسطینی علاقے میں ہوتا رہا لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوف امیڈور نےانٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ثابت کرتا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی انٹیلی جنس کی صلاحیتیں اچھی نہیں تھیں۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا ہے کہ فوج کو عوام کے سوالوں کا جواب دینا ہے لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ لیکن ابھی ہمیں ( عسکریت پسندوں سے) لڑنا اور تحقیقات کرنا ہے۔

اگر خطے کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو 2007 میں غزہ پر حماس کے قبضے کے بعد سے اسرائیل اس علاقے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کےانٹیلی جنس ادارے معلومات کے حصول کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی مدد لے رہے ہیں۔

فلسطینوں کی تمام کمیونیکیشنز ایجنسیوں کے ریڈار سے ہو کر گزرتی ہے۔پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ حماس اپنے منصوبوں کو اتنی کڑی نگرانی کے باوجود بھی پوشیدہ رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔

ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورم کے صدر اور اسرائیل کے ایک سابق جنرل عامر ایویوی کہتے ہیں کہ ایجنسیوں نے معلومات حاصل کرنے کے لیے غزہ میں زمین پر اپنی موجودگی کی بجائےتیکنیکی اور جدید ذرائع پر زیادہ انحصار شروع کر دیا تھا اور دوسری طرف وہ (حماس) پتھر کے زمانے میں واپس چلے گئے تھے۔

انہوں نے پتھر کے زمانےکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندوں نے فون یا کمپیوٹر کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور وہ اپنی حساس معلومات چھپانے کے لیے قدیم زمانے کے طریقے استعمال کرنے لگے تھے جو جدید آلات کی پکڑ میں نہیں آتے۔ وہ زیر زمین چلے گئے تھے۔

ایویوی کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کی ایک حقیقی تصویر بنائے میں ناکام رہیں اور انہیں حماس کے ارادوں کا علم نہیں ہو سکا۔ ایجنسیاں یہ سمجھتی رہیں کہ حماس گروپ غزہ کی معیشت کو ترقی دینے، اور اپنے علاقے کے 23 لاکھ فلسطینوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے لیکن وہ اندر ہی اندر تباہی کے منصوبے کو آگے بڑھا رہا تھا۔

ایک سیکیورٹی تجزیہ کار اموس ہیرل نے روزنامہ ہارٹز میں اپنے آرٹیکل میں ایک اور پہلو کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں اسرائیل نے لگ بھگ 18 ہزار فلسطینی کارکنوں کو غزہ سے اسرائیل کے اندر آ کر کام کرنے کی اجازت دی، جس سے ان کی آمدنیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

اس اقدام کا مقصد غالباً معاشی فوائد فراہم کر کے فلسطینیوں کو امن کی جانب راغب کرنا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ لیکن عملی طور پر ہوا یہ کہ اس کی آڑ میں حماس کے اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کارکن اچانک حملے کے لیے خفیہ طور پر تیاری کرتے رہے جس کا تباہ کن نتیجہ سامنے آیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی کا ایک اور سبب نتن یاہو کی حکومت پر کمزور گرفت اور ملک میں جاری سیاسی معاملات بھی بنے ہیں۔

خبررساں ادارے نے ایک مصری انٹیلی جنس اہل کار کے حوالے سے، جو اکثر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، کہا ہے کہ ’’ہم نے اسرائیل کو خبردار کر دیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے‘‘۔

اے پی کا کہنا ہے کہ مصری اہل کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے انہیں خبردار کر دیا تھا کہ بہت جلد ایک بڑا دھماکہ ہونے والا ہے۔ لیکن انہوں نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ اندرونی سیاسی مسائل اور دباؤ کی وجہ سے اسرائیل کی توجہ مغربی کنارے پر مرکوز ہو گئی تھی۔ کیونکہ نتن یاہو کی حکومت مغربی کنارے کے یہودی آبادکاروں کے حامیوں پر مشتمل ہے۔

وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر کی وجہ سے حکومت پر سیکیورٹی کریک ڈاؤن کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اس دباؤ کی وجہ سے حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی توجہ غزہ سے ہٹ کر مغربی کنارے کی جانب ہو گئی تھی، جس کا فائدہ حماس نے اٹھایا۔

اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسیاں ممکن ہے کہ اپنی ناکامیوں پر جلد قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس بڑی کارروائی سے سات عشروں سے سلگتے ہوئےاس خطے میں جو طوفان برپا ہوا ہے، اس سے عالمی امن کے لیے نئے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں