اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی، ہلاکتوں کی تعداد 2100 سے متجاوز

تل ابیب + غزہ (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی ڈی پی اے) اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی کے تقریباً چار دن بعد بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے پر حملوں میں تیزی جاری ہے۔ اسرائیل میں ہلاکتوں کی تعداد 1200 تک پہنچ گئی ہے جبکہ غزہ میں 900 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

گزشتہ ہفتے کے روز حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملوں کے بعد سے غزہ پر اسرائیل کی بمباری جاری ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے پاس تین لاکھ فوجی تعینات کیے ہیں جبکہ حماس کے حملے بھی جاری ہیں۔ اس لڑائی میں اب تک 2100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیل میں حکام نے 1200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ فلسطین میں حکام کے مطابق غزہ پر اسرائیل کی بمباری میں اب تک 900 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں ہی جانب ہلاکتوں میں عام شہری، خواتین اور بچے شامل ہیں۔

اب تک اس لڑائی میں دونوں جانب کے کئی ہزار لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز سے کم از کم 4,600 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

اس دوران اسرائیلی حکام نے اپنے جنوبی شہر اشک لون کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ غزہ سے مزید عسکریت پسندوں کی آمد کی اطلاعات کے بعد محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل ہو جائیں۔

غزہ پر اسرائیل کے فضائی حملے

اسرائیلی فضائیہ کے درجنوں جنگی طیاروں نے رات کے دوران غزہ میں الفرقان کے پڑوس میں 200 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے حماس اپنے حملوں کا منصوبہ بناتی اور انجام دیتی رہی ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران علاقے میں یہ تیسری جوابی کارروائی ہے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع یووگیلنٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے فوجیوں سے ”تمام پابندیاں ختم کردی ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ غزہ اب ”کبھی اس طرح واپس نہیں آئے گا، جیسا کہ وہ پہلے تھا۔”

اسرائیلی فضائی حملوں سے غزہ کے لاکھوں شہری بے گھر

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر بمباری جاری رکھنے کی وجہ سے 260,000 سے زائد افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔

ادارے نے منگل کی رات کو اپنے ایک اپ ڈیٹ میں بتایا کہ سن ”2014 میں 50 دن کی جنگ میں جتنے افراد بے گھر ہوئے تھے، یہ تعداد اس سے زیادہ ہے” اور اس میں مزید اضافے کی توقع ہے۔

غزہ کی پٹی میں تقریباً 23 لاکھ افراد بستے ہیں اور کثافت کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے زیادہ گھنی آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔

اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی بمباری سے اب تک 1,000 سے زیادہ مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ”وقت کے ساتھ ایک بہت بڑا چیلنج” بنتا جا رہا ہے۔

غزہ کے عام شہریوں کیلئے محفوظ راستے پر بات چیت

امریکہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کے شہریوں کے لیے محفوظ راستے کے بارے میں بات کر رہا ہے جب کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر گولہ باری جاری ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ”ہم اس سوال پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، اس پر مشاورت بھی جاری ہے۔” مسٹر سلیوان نے مزید تفصیلات شیئر نہیں کیں اور صرف اتنا کہا کہ ”آپریشنل ایجنسیوں کے درمیان” بات چیت جاری ہے۔

غزہ کے پاس تین لاکھ اسرائیلی فوجی تعینات

اسرائیلی فوج کے ترجمان جوناتھن کونریکس کا کہنا ہے کہ حماس کے ساتھ لڑائی کے لیے تقریباً 300,000 فوجی اس وقت غزہ کی پٹی کے قریب تعینات ہیں۔

انہوں نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ”ہم جو کچھ غزہ کی پٹی کے قریب ان علاقوں میں کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم نے تعیناتی کی ہے- دراصل ہم نے اپنی مختلف بریگیڈ اور ڈویژن سے پیدل فوج، بکتر بند سپاہی، آرٹیلری کور اور بہت سے دوسرے فوجی ریزرو سے بھیجے ہیں، ان کی تعداد تین لاکھ ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”اور اب وہ غزہ کی پٹی کے قریب، اس مشن کو انجام دینے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔۔۔۔ جو ہمیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اور یہ مشن اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس جنگ کے اختتام پر حماس کے پاس ایسی کوئی فوجی صلاحیت نہیں ہو گی، جس کے ذریعے وہ اسرائیلی شہریوں کو دھمکی دے سکیں یا قتل کر سکیں۔”

عالمی رد عمل

امریکی صدر جو بائیڈن نے حماس کے حملے کو ‘واضح برائی’ پر مبنی کارروائی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ اس دوران امریکی فوجی ساز و سامان اسرائیل پہنچ گیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک خطاب میں حماس کی مذمت کی، تاہم حماس نے اس کے رد عمل میں کہا کہ ان کے پیغام میں اسرائیل کی ”فلسطینیوں کے خلاف جرائم اور دہشت گردی” کی پردہ پوشی کی گئی ہے۔

یورپی یونین میں خارجی امور کے اعلیٰ نمائندے جوسیپ بوریل نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل کے ردعمل سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن ایسا بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے حق کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔”

انہوں نے اسرائیل پر حماس کے حملوں کے تناظر میں فلسطینی اتھارٹی کے لیے مالی امداد جاری رکھنے کی ضرورت کا بھی اظہار کیا۔

بوریل نے کہا کہ ”ہم حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسی طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی ایک دوسری چیز ہے۔ فلسطینی اتھارٹی تو ہماری شراکت دار ہے۔”

بوریل نے مزید کہا: ”ہمیں اس بارے میں بھی سوچنا ہو گا کہ اس کے بعد اب ہوناکیا ہے” اور یہ کہ یہ ایک ایسے حل کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے، جو خطے میں طویل مدتی امن لانے کا ضامن ہو۔

روسی صدر کی امریکہ پر تنقید

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی پر اپنا پہلا بیان جاری کرتے ہوئے اس تنازعہ کو امریکہ کی ناکام خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا۔

ماسکو میں عراقی وزیر اعظم محمد السودانی کے ساتھ اپنی بات چیت کے آغاز میں پوٹن نے کہا کہ ”بہت سے لوگ مجھ سے متفق ہوں گے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کی ایک واضح مثال ہے۔”

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ”نئی بستیوں کی تعمیر پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن افسوس کہ اس نے ایسے سمجھوتوں کو تلاش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہوں، بلکہ اس کے برعکس اس نے دونوں فریقوں پر دباؤ ڈال کر اپنے نظریہ کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔”

پوٹن نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ ”فلسطینی عوام کے اہم مفادات کو مدنظر رکھنے میں ناکام رہا ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں