اسرائیل کے خلاف لڑائی میں ’حصہ ڈالنے کو تیار‘ حزب اللہ کیسے وجود میں آئی اور اس کی عسکری قوت کتنی ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) دنیا اب بھی 7 اکتوبر کے اسرائیل پر ہونے والے فلسطینی جنگجو گروپ حماس کے غیر معمولی حملے اور اس کے بعد کی جوابی اسرائیلی کارروائیوں اور غزہ کی پٹی پر متوقع زمینی حملے سے دوچار ہے۔

اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد، جس میں کم از کم 1400 افراد ہلاک ہوئے، حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان سرحد پار فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔

دریں اثنا اسرائیل کے غزہ پر جوابی فضائی حملے جاری ہیں جس میں اب تک ہزاروں فلسطینی افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حزب اللہ گروپ نے کہا کہ وہ اسرائیل کے خلاف لڑائی میں حصہ ڈالنے کے لیے ’مکمل طور پر تیار‘ ہے۔

حزب اللہ کو ایران کی حمایت حاصل ہے جبکہ امریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں مشرقی بحیرہ روم میں اپنے جنگی جہاز تعینات کر دیے ہیں۔

ایسے کشیدہ ماحول میں اگر ایران اور امریکہ اس تنازع میں براہ راست شامل ہو جاتے ہیں تو کیا یہ تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتی ہے؟

اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے آئیے ہم حزب اللہ کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیا تنظیم ہے، کس طرح وجود میں آئی اور اس کے پاس کتنے فوجی اور کیسے ہتھیار ہیں؟

حزب اللہ

حزب اللہ لبنان میں شیعہ مسلمانوں کی ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم خیال کی جاتی ہے۔ ایران کی پشت پناہی سے سنہ 1980 کی دہائی میں تشکیل پانے والی یہ جماعت لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلا کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہی ہے۔ حزب اللہ کا لغوی مطلب ’خدا کی جماعت‘ کے ہیں۔

لبنان پر اسرائیلی قبضے کے بعد شیعہ علما کے ایک چھوٹے سے گروہ کی اعانت سے اُبھرنے والی اس تنظیم کے اولین مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور لبنان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا تھا۔

سنہ 1992 سے حسن نصراللہ اس کے سربراہ ہیں جبکہ اس تنظیم کو مئی 2000 میں اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی جب اسرائیل نے وہاں سے مراجعت کی۔ اس عمل کے پس منظر میں حزب اللہ کے عسکری ونگ ’اسلامک ریزسسٹینس‘ کا ہاتھ تھا۔

اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لبنان کی کثیر المذہبی ریاست کی جگہ لبنان میں ایرانی طرز کی اسلامی ریاست بنائی جائے مگر بعد میں اسے یہ خیال ترک کرنا پڑا۔

ایران کی طرف سے حزب اللہ کو ایک طویل عرصے تک مالی اور عسکری مدد فراہم کی جاتی رہی ہے۔

لبنان میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور یہ تحریک لبنان میں بسنے والے شیعہ فرقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلا سے اس تنظیم نے عام لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔

اب لبنان کی پارلیمان میں اس جماعت کے امیدواروں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے اس تنظیم نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ جماعت کا اپنا ٹی وی سٹیشن ’المینار‘ کے نام سے قائم ہے۔

حزب اللہ پر کئی سالوں سے خاص طور پر اسرائیلی اور امریکی اہداف کے خلاف بم دھماکے اور سازشیں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ اسے مغربی ریاستوں، اسرائیل، خلیجی عرب ممالک اور عرب لیگ نے ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

حزب اللہ کو شام کے صدر بشار الاسد کا ایک کٹر اتحادی سمجھا جاتا ہے اور اس نے شام کی خانہ جنگی کے دوران مسٹر اسد کی طرف سے لڑنے کے لیے ہزاروں عسکریت پسند بھیجے۔ شام کی خانہ جنگی سنہ 2011 میں شروع ہوئی اور یہ تنازع شدت اختیار کرتا گیا۔ حکومت کی حامی افواج کو حزب اللہ کا ساتھ باغیوں کے ہاتھوں جانے والی زمین کو دوبارہ حاصل کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوا، خاص طور پر پہاڑی لبنانی سرحد کے ساتھ۔

اسرائیل اکثر شام میں ایران اور حزب اللہ کے عسکریت پسندوں سے منسلک اہداف پر حملے کرتا ہے، لیکن وہ ان حملوں کو شاذ و نادر ہی تسلیم کرتا ہے۔

تاہم شام میں حزب اللہ کی شمولیت نے لبنان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو تیز کر دیا ہے۔

شام کے علوی شیعہ صدر کے لیے حزب اللہ کی حمایت اور ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات کی وجہ سے خلیجی عرب ممالک کی طرف سے دشمنی میں گہرا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

حزب اللہ کی فوجی، سکیورٹی، اور سیاسی طاقت کے ساتھ ساتھ اس کی فراہم کردہ سماجی خدمات نے ریاست کے اندر ایک ریاست کے طور پر اس کی ساکھ قائم کی ہے۔ اس کا حکومتی اداروں سے مقابلہ ہے جس کی وجہ سے اس کے حریفوں کی طرف سے اس کی سخت تنقید کی جاتی ہے۔ بعض معاملوں میں اب اس کی صلاحیتیں لبنانی فوج سے زیادہ ہیں اور سنہ 2006 کی جنگ میں اسرائیل کے خلاف ان کی عسکری قوت کا خاطر خواہ استعمال بھی کیا گيا ہے۔

کچھ لبنانی حزب اللہ کو ملک کے استحکام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، لیکن یہ شیعہ برادری میں مستقل طور پر مقبول ہے۔

حزب اللہ کا اسرائیل مخالف مؤقف

حزب اللہ کی ابتدا کی درست نشاندہی کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے پیش رو سنہ 1982 میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے حملوں کے جواب میں جنوبی لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد اُبھرے۔

اس حملے کے بعد عسکریت پسندوں کے ردعمل کے حامی شیعہ رہنما عمال تحریک سے الگ ہو گئے۔

نئی تنظیم، اسلامی عمال کو وادی بیکاہ میں واقع ایران کے پاسداران انقلاب کی طرف سے کافی عسکری اور تنظیمی حمایت حاصل ہوئی، اور یہ شیعہ ملیشیا میں سب سے نمایاں اور موثر بن کر ابھری جس نے بعد میں حزب اللہ کی بنا رکھی۔

ان ملیشیا گروپوں نے اسرائیلی فوج اور اس کی اتحادی جنوبی لبنان آرمی کے ساتھ ساتھ لبنان میں غیر ملکی طاقتوں پر حملے شروع کر دیے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سنہ 1983 میں امریکی سفارت خانے اور امریکی میرین بیرکوں پر ہونے والے بم دھماکوں میں ان کا ہاتھ تھا، جس کے نتیجے میں 258 امریکی اور 58 فرانسیسی فوجی مارے گئے تھے اور مغربی امن دستوں کو انخلا پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

سنہ 1985 میں حزب اللہ نے باضابطہ طور پر ایک ‘کُھلا خط’ شائع کرکے اپنے قیام کا اعلان کیا جس میں امریکہ اور سوویت یونین کو اسلام کے بنیادی دشمنوں کے طور پر شناخت کیا گیا اور اسرائیل کے ‘خاتمے’ کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کر رہا ہے۔

سنہ 1989 کے طائف معاہدے نے، جس نے لبنان کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور ملیشیاؤں کو غیر مسلح کرنے پر زور دیا، اس نے حزب اللہ کو اپنے فوجی ونگ کو ایک ‘اسلامی مزاحمت’ فورس کے طور پر تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جو اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے وقف ہے، اور اسے اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی۔

1990 میں شامی فوج کی طرف سے لبنان میں امن قائم کرنے کے بعد حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اپنی گوریلا جنگ جاری رکھی، لیکن لبنان کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔ 1992 میں اس نے پہلی بار قومی انتخابات میں کامیابی سے حصہ لیا۔

جب سنہ 2000 میں اسرائیلی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں تو حزب اللہ کے سر ان کو باہر دھکیلنے کا سہرا باندھا گیا۔ اس گروپ نے غیر مسلح کرنے کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کی اور جنوب میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھا، شیبا فارمز اور دیگر متنازع علاقوں میں مسلسل اسرائیلی موجودگی کے جواز کے طور پر انھوں نے خود کو مسلح رکھا۔

سنہ 2006 میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار سے حملہ کیا جس میں آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے اور دو کو اغوا کر لیا گیا، جس سے اسرائیل کی طرف سے زبردست ردعمل سامنے آیا۔

اسرائیلی جنگی طیاروں نے جنوبی لبنان اور بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے مضبوط ٹھکانوں پر بمباری کی، جب کہ حزب اللہ نے اسرائیل پر تقریباً 4000 راکٹ داغے۔ 34 روزہ لڑائی کے دوران 1,125 سے زیادہ لبنانی، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، کے ساتھ ساتھ 119 اسرائیلی فوجی اور 45 عام شہری مارے گئے۔

حزب اللہ اسرائیل کے خلاف اس جنگ میں بچ گئی اور حوصلے کے ساتھ ابھری۔ اگرچہ اس کے بعد سے اس نے اپنے ہتھیاروں کو اپ گریڈ اور بڑھانا شروع کیا اور کئی نئے جنگجو بھی بھرتی کیے ہیں، لیکن سرحدی علاقے پر کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی ہے اور اب اس علاقے میں اقوام متحدہ کے امن دستے اور لبنانی فوج گشت کر رہی ہے۔

حزب اللہ کی قوت میں اضافہ

سنہ 2008 میں جب لبنان کی مغربی حمایت یافتہ حکومت نے حزب اللہ کے نجی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کو بند کرنے اور بیروت کے ہوائی اڈے کے سکیورٹی چیف کو گروپ سے تعلقات کی وجہ سے ہٹانے کے لیے اقدام کیے تو حزب اللہ نے دارالحکومت کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا اور حریف سنی گروپس سے لڑ کر اپنا جواب دیا۔

فرقہ وارانہ جھڑپوں کو ختم کرنے کے لیے لبنان کی حکومت پیچھے ہٹ گئی کیونکہ اس میں 81 افراد کو ہلاک ہو گئے تھے اور لبنان ایک نئی خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گيا تھا۔ اس کے بعد اقتدار کی شيئرنگ کے معاہدے نے حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کو کابینہ کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرنے کا اختیار دیا۔

سنہ 2009 کے انتخابات میں اس نے پارلیمنٹ میں 10 نشستیں حاصل کیں اور متحدہ حکومت میں شامل رہی۔

اسی سال کے آخر میں حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصر اللہ نے ایک نیا سیاسی منشور جاری کیا جس میں گروپ کے ’سیاسی وژن‘ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس نے 1985 کے منشور میں شامل اسلامی جمہوریہ کا حوالہ چھوڑ دیا، لیکن اسرائیل اور امریکہ کے خلاف سخت موقف برقرار رکھا اور کہا کہ حزب اللہ کو اپنے ہتھیار رکھنے کی ضرورت ہے۔

سنہ 2011 میں گروپ اور اس کے اتحادیوں نے سعودی حمایت یافتہ سنی سعد حریری کی قیادت والے اتحاد کی حکومت کو تحلیل کرنے پر مجبور کیا۔ حزب اللہ نے خبردار کیا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں رہے گا کیونکہ اس کے چار ارکان پر 2005 میں مسٹر حریری کے والد رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔

دسمبر 2020 میں، حزب اللہ کے رکن سلیم عیاش کو قتل میں ملوث ہونے پر اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ خصوصی ٹریبونل برائے لبنان نے غیر حاضری میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

حزب اللہ اور اس کے اتحادی اس کے بعد کی حکومتوں کا حصہ بنے رہے ہیں، جہاں وہ کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

ایران اور امریکہ کا اس تنازعے میں شامل ہونا کیا تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے؟

ہمارے بین الاقوامی ایڈیٹر جیریمی بوون جو جنوبی اسرائیل سے رپورٹنگ کرتے ہیں ان کا کہنا ہے:

جب جو بائیڈن سے ایران یا اس کی لبنانی اتحادی حزب اللہ کی طرف سے مداخلت کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو جو بائیڈن نے اسے مسترد کرتے ہوئے ’نہیں‘ کہا۔

امریکیوں نے دریں اثنا مشرقی بحیرہ روم میں دو طیارہ بردار جنگی جہاز تعینات کیے ہیں تاکہ ایران کو اس تنازعے سے باہر رہنے کا بہت مضبوط پیغام دیا جا سکے۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی دوسری طاقت اس میں مداخلت کرتا ہے تو ان کے سامنے نہ صرف اسرائیل ہوگا بلکہ انھیں امریکی فوجی طاقت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی فالٹ لائن یعنی نااتفاقی امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور ایرانیوں اور ان کے اتحادیوں درمیان ہے۔

دونوں فریق اس میں شامل ہونے کے خطرات سے آگاہ ہیں۔ اگر یہ سرد جنگ سے گرم جنگ کی طرف جاتی ہے تو یہ عالمی اہمیت کے حامل مشرق وسطیٰ میں شعلے کو بھڑکا دے گا۔

اگر لبنان شامل ہو جاتا ہے تو حماس کے مقابلے میں حزب اللہ کتنی بڑی طاقت ہو گی؟

اس بارے میں جنوبی لبنان سے رپورٹنگ کرنے والے ہمارے نمائندے ہیوگو باشیگا نے کہا:

حزب اللہ جو کہ لبنانی عسکری، سیاسی اور سماجی تحریک ہے اسے اسرائیل نے ایک طویل عرصے سے حماس سے زیادہ طاقتور قوت کے طور پر دیکھا ہے۔

سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے مطابق بھاری ہتھیاروں سے لیس ایرانی حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے پاس اندازاً 130,000 راکٹ اور میزائل ہیں۔

ان ہتھیاروں میں سے زیادہ تر چھوٹے ہیں اور یہ کسی شخص کے لیے قابل نقل و حمل ہیں، یہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے ان گائيڈڈ راکٹ ہیں۔

لیکن ان میں طیارہ شکن اور جہاز شکن میزائلوں کے ساتھ ساتھ گائیڈڈ میزائل بھی شامل ہیں جو اسرائیل کے اندر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ ہتھیار حماس کے پاس موجود ہتھیار سے زیادہر جدید قسم کے ہیں۔

حزب اللہ کے رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس 100,000 جنگجو ہیں جبکہ آزادانہ اندازوں کے مطابق ان کی تعداد 20,000 سے 50,000 کے درمیان ہے۔ بہت سے لوگ اچھی طرح سے تربیت یافتہ ہیں اور جنگ کرنے میں سخت ہیں۔ اس کے ساتھ انھیں شام کی خانہ جنگی میں لڑنے کا تجربہ بھی ہے۔

اسرائیل کے مطابق حماس کے پاس 30,000 جنگجو ہیں جو کہ حزب اللہ سے کم ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں