فلسطینی عسکریت پسند تنظیم “حماس” نے دو امریکی شہریوں کو رہا کر دیا

واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے مسلح ونگ “عزالدین القسام بریگیڈز” نے قطری ثالثی کی کوششوں سے دو امریکی یرغمال خواتین کو انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا ہے۔

رہائی پانے والی ماں اور بیٹی ان تقریبا 200 افراد میں شامل تھیں جنہیں غزہ کی پٹی سےحملہ آور ہونے والے حماس جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے دوران یرغمال بنا لیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے “رائٹرز” کے مطابق تنظیم نے کہا ہے کہ 20 سے زیادہ یرغمالی اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے گئے ہیں۔

تاہم اس نے اس سلسلے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

خبر رساں ادارے “رائٹرز” کے مطابق حماس نے کہا کہ 50 مزید یرغمال دوسرے مسلح گروپوں کے قبضے میں ہیں۔

گروپ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا کہ انہوں نے شہریوں کو “انسانی بنیادوں پر رہا کیا، اور امریکی عوام اور دنیا کو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ، بقول ان کے بائیڈن اور ان کی فاشسٹ انتظامیہ کے دعوے جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہانہوں نے بھی اہل خانہ کے ساتھ سکھ کا سانس لیا ہے۔

اس کےساتھ ہی امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار نے کہا کہ ابھی اور بھی بہت سے یرغمال بنائے گئے لوگ ہیں جن میں بچے اور بڑی عمر کے افراد شامل ہیں۔

جمعے کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ انہوں نے اور صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطیٰ کے اپنے دوروں کے دوران کچھ مغویوں کے اہل خانہ سے بات کی تھی۔

انہوں نے کہا، “کہیں بھی کسی خاندان کو اس اذیت کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔”

بقیہ یرغمالیوں کے حوالے سے بلنکن نے کہا کہ امریکی حکومت ان کی رہائی کو محفوظ بنانے اور اپنے پیاروں کو گھر لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔

بلنکن نے یرغمالیوں کی رہائی میں مدد اور یقینی بنانے کے لیے قطر کا شکریہ ادا کیا۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ حماس کے حملے کے دوران کم از کم 199 لوگوں کو یرغمال بنایا گیا جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔ ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر بوڑھے افراد تک شامل ہیں۔

جوڈیتھ اور نتالیہ رانن

رہا کی جانے والی خواتین جوڈیتھ اور نتالیہ رانن کا تعلق شکاگو سے ہے۔ ان کے ربائی کے مطابق جوڈیتھ رانن اور ان کی سترہ سالہ بیٹی اپنے ایک عزیز کی 85 ویں سالگرہ اور یہودیوں کا ہالی ڈے سیزن منانےکے لیے اسرائیل جانے پر بہت خوش تھیں۔

وہ دونوں اپنے سفر کے دوران پیغامات بھیجتی رہیں اور یہ بتاتی رہیں کہ وہ اپنے سفر سے بہت لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ وہ غزہ کی سرحد سے کچھ فاصلے پر واقع اسرائیل کے علاقے نہال اوز میں قیام پذیر تھیں۔

17 سالہ نتالیہ نے حال ہی میں ہائی اسکول سے گریجو ایشن کی تھی۔ اس کے انکل اوی ضمیر نے ایک دعائیہ تقریب میں کہا تھاکہ وہ بیرون ملک اپنے رشتے داروں سے ملنے گئی تھی۔ وہ ایک بہت رحمدل لڑکی ہے۔ وہ جانوروں سے محبت کرتی ہے۔ ہم اس کےلیے دعا گو ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ واپس آ جائے گی۔

یرغمالوں میں سے کچھ کے خاندانوں کو حملے کے دوران پریشان کن ٹیلی فون کالز یا ٹیکسٹ ملے تھے۔ جب کہ باقی خاندانوں کو اپنے عزیزوں کی طرف سے کوئی خبر نہیں ملی اور بعد میں انہوں نے ویڈیو پر دیکھا کہ انہیں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔

وہ اب تک بے چینی سے یہ پتہ چلانے کی کوشش میں ہیں کہ آیا یرغمالی زندہ بھی ہیں اور وہ ان کے بارے میں، ان کی زندگی اور ان کے خوابوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں