اسرائیل حماس جنگ: چین نے خصوصی ایلچی مشرق وسطی بھیج دیا

بیجنگ (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) چین کے صدر ر شی جن پنگ نے مشرق وسطی میں جاری جنگ پر اپنا پہلا عوامی بیان دیتے ہوئے اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور زور دیا ہے کہ دو ریاستی حل کے ذریعے”فلسطین کی ایک آزاد ریاست” کا قیام ہی اس تنازعہ سے نکلنے کا “بنیادی راستہ” ہے۔ چین نے اس مسئلے پر اپنے کردار کو وسیع کرتے ہوئے اپنا ایک ایلچی بھی مشرق وسطیٰ بھیجا ہے۔

بیجنگ میں مصری وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی کے ساتھ ملاقات کے دوران چینی رہنما نے اسرائیل فلسطینی تنازعے پر چین کی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا، “اولین ترجیح لڑائی کو جلد از جلد روکنا، تنازع کو پھیلنے سے روکنا اور شدید انسانی بحران کو جنم دینے سے روکنا ہے۔”

مبصرین کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیلی قصبوں پر حملے کے بعد سے جاری لڑائی پر شی کا بیان بیجنگ کی عشروں سے چلتی آرہی پالیسی کا تسلسل ہے اور انہوں نے اس بیان میں اس پالیسی کا اعادہ کیا ہے۔

چینی صدر نے صورت حال کی شدت کو کم کرنے میں مصر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ بیجنگ “مصر اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ ہم آہنگی مستحکم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ “فلسطین کے مسئلے کا جلد از جلد ایک جامع، منصفانہ اور پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔””

مشرق وسطیٰ کے لیے چینی ایلچی

غیر خبر رساں ادارے “ایسو سی ایٹڈ پریس” کے مطابق چین کے خطے میں بھیجے گئے ایلچی ژائی جوکے شیڈول میں اپنے ایک روسی ہم منصب کے ساتھ قطر میں ایک ملاقات بھی شامل تھی۔

چین اور روس دونوں اس تنازعہ پر امریکی نقطہ نظر سے مختلف موقف رکھتے ہیں۔

روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ دونوں فریقوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ “مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے میں اس اور دیگر بحرانوں کے سیاسی حل کے لیے ماسکو اور بیجنگ قریبی ہم آہنگی کی کوششوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔”

چین نے، جو امریکہ کو اسرائیل کےکٹر حامی کے طور پر دیکھتا ہے، کہا ہے کہ وہ شہریوں پر حملوں کی مخالفت کرتا ہے۔

تاہم، بیجنگ نے حماس کے اس ابتدائی حملے کی مذمت نہیں کی جس کے نتیجے میں جنگ شروع ہوئی ہے۔

اس کے بجائے، چین نے شہریوں کے تحفظ کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اسرائیل ممکنہ زمینی حملے سے پہلے غزہ پر بمباری کر رہا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے جمعے کو کہا کہ “ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری میں ہاٹ سپاٹ (بھڑکتے ہوئے) مسائل سے نمٹنے کے لیے بڑی طاقتوں کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔”

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین خود کو دنیا میں ثالث کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بیجنگ کی حماس کی مذمت میں ہچکچاہٹ کا مقصد مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کو نقصان سے بچا ناہے۔

امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے ڈینس وائلڈر کہتے ہیں، “مشرق وسطیٰ سے واشنگٹن کے عمومی انخلاء کے بعد سے چین نے (مشرق وسطی میں) اہم پیش رفت کی ہے اور وہ عرب دنیا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔”

وائلڈر نے کہا کہ چونکہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک کے لیے بنیادی تحفظ کا ضامن ہے، چین کا ایک آسان کردار ہے جو اسے خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری قبول کیے بغیر “امن کے لیے کال” کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو فون پر کو بتایا، “اس صورتحال میں چین کےبطور ثالث ہونےکا خیال حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔”

خیال رہے کہ رواں سال مارچ میں، چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کی ثالثی کی تھی جس کے ذریعہ علاقائی حریفوں نے سفارتی تعلقات بحال کرنے اور سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔

ایک ماہ بعد اپریل میں، سابق چینی وزیر خارجہ گینگ نے اپنے اسرائیلی اور فلسطینی ہم منصبوں کو بتایا تھا کہ بیجنگ دونوں فریقوں کے درمیان امن مذاکرات میں مدد کے لیے تیار ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں