کیا غزہ کی پٹی کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں ’جنگی جرائم‘ ہیں؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) عام شہریوں پر حملے اور یرغمال بنا لینا، محاصرہ، جبری بے دخلی اور غیر عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانا: یہ سب جنگ میں ممنوعہ عمل سمجھے جاتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے قانونی مشیر ہوگو ریلوا کے مطابق بین الاقوامی قانون میں جنگ پر پابندی نہیں لیکن کچھ اصول متعین ہیں۔

جب ان اصولوں کی پاسداری نہ کی جائے جنھیں بین الاقوامی معاہدوں کے طور پر بیشتر ممالک تسلیم کرتے ہیں تو ایسی کارروائیاں جرم تصور کی جاتی ہیں۔

کچھ ایسا ہی اس وقت اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں بھی ہو رہا ہے جس میں دونوں اطراف ایک دوسرے پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام لگا رہی ہیں۔

حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے میں 1300 افراد ہلاک جبکہ 200 یرغمال بنائے گئے جس کے بعد اب تک اسرائیلی بمباری سے غزہ کی پٹی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3700 سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہاں جنگی جرائم سے منسلک چند تعریفیں بیان کی جا رہی ہیں اور اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا موجودہ تنازع میں وقوع پذیر ہونے والی چند کارروایاں ان جرائم کے ضمرے میں آتی ہیں یا نہیں۔

نسل کشی (جینوسائڈ)

بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی مخصوص قومیت، نسل یا مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والوں کو اس ارادے سے ہلاک کرنا کہ وہ مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو جائیں، ’نسل کشی‘ قرار پاتا ہے۔

نسل کشی کا مرکزی نکتہ بھی یہی ہے کہ جرم اس نیت اور ارادے سے کیا جا رہا ہو کہ کسی مخصوص گروہ کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اسے مٹا دینا مقصود ہو۔

اقوام متحدہ کے ’کنونشن آن پریوینشن اینڈ پنشمنٹ آف دی کرائم آف جینوسائڈ‘ 1948 میں اس جرم کی روک تھام اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سزا بھی بتائی گئی ہے۔

1998 میں ’انٹرنینشل کرمنل ٹریبیونل فار روانڈا‘ نے دیگر ایسے اقدامات کی وضاحت بھی کی جن کو نسل کشی گردانا جا سکتا ہے۔

ان اقدامات میں مخصوص گروہ کے اراکین کے جسمانی اور ذہنی تشخص کو سنجیدہ چوٹ پہنچانا، ایسے حالات پیدا کر دینا جو اس گروہ کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بنیں، اس گروہ میں بچوں کی پیدائش روکنے کے اقدامات کرنا، ایک گروہ کے بچوں کو جبری طور پر کسی دوسرے گروہ کو منتقل کر دینا شامل ہیں۔

بین الاقوامی قانون میں نسل کشی کی تعریف کو پہلی بار جرمن نازیوں کیخاف نیورمبرگ مقدمے کے دوران استعمال کیا گیا۔ اب تک اسرائیل اور فلسطین سمیت 153 ممالک اقوام متحدہ کے اس کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔

تاہم سب ممالک نے ’روم سٹیچوٹ‘ پر دستخط نہیں کیے جس کے تحت انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا قیام ہوا جو ایسے جرائم کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ان میں امریکہ، چین، روس اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔

ہولوکاسٹ، روانڈا، کمبوڈیا، بوسنیا، عراق میں یزیدیوں اور میانمار میں روہنگیا کے خلاف کارروائیوں کو حالیہ تاریخ میں نسل کشی کی مثالیں قرار دیا جاتا ہے۔

جنگی جرائم

بین الاقوامی قانون کے تحت جنگ کے نقصانات اور اثرات کو محدود رکھنے کے لیے ایسے عام شہریوں کو تحفظ دیا گیا ہے جو براہ راست جنگ میں شریک نہیں ہوتے۔

عام شہریوں پر تشدد یا حملے جرم تصور کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایسا اسلحہ بھی ممنوعہ قرار دیا گیا ہے جس کے استعمال سے عام شہری متاثر ہو سکتے ہیں جیسا کہ بارودی سرنگیں، کیمیائی ہتھیار۔

بین الاقوامی قانون کے مطابق زخمیوں اور بیماروں، بشمول زخمی فوجیوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ کسی کو یرغمال بنا لینا یا پھر بے دخلی بھی جنگی جرائم میں شامل ہے۔

1950 کے جینیوا کنونشن کے مطابق بچوں اور ثقافتی ورثے کو خصوصی حفاظت دی گئی ہے۔ ایسے جرائم کو طے کرنے کا اختیار بھی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پاس ہے۔

انسانیت کیخلاف جرائم

جنگی جرائم صرف جنگ کے دوران سرزد ہو سکتے ہیں لیکن انسانیت کیخلاف جرائم امن کے دوران بھی ہو سکتے ہیں جن میں عام شہریوں پر تشدد، جبری گمشدگی، قتل، بے دخلی یا جنسی تشدد اور ریپ جیسے جرائم شامل ہیں۔

ہوگو ریلوا کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ جرائم عام شہریوں کیخلاف منظم حملے کے طور پر کیے گئے ہوں۔

مثال کے طور پر اگر کسی ملک میں پولیس کسی پر تشدد کرے تو یہ مقدمہ تشدد کیخلاف عالمی کنونشن کے ضمرے میں آئے گا کیوں کہ یہ ایک واقعہ ہے۔ تاہم اگر تشدد منظم انداز میں وسیع آبادی کیخلاف ہوا ہو تو یہ انسانیت کیخلاف جرم تصور کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی مسلح گروہ عام آبادی میں گھس کر لوٹ مار کرے، لوگوں کو اغوا کرے اور خواتین کا ریپ کرے تو یہ بھی انسانیت کیخلاف جرم ہو گا۔

کیا حالیہ تنازع میں یہ جرائم ہو رہے ہیں؟

اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع میں دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر نسل کشی سمیت جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔

ہوگو ریلوا، جو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے مختلف عالمی مقدمات میں پیش ہو چکے ہیں، سے ہم نے سوال کیا کہ آیا حالیہ تنازع کے دوران ایسے جرائم ہوئے ہیں؟

انھوں نے کہا کہ ’عام شہریوں کو یرغمال بنانا جنگی جرم ہے۔‘ دوسری جانب انھوں نے کہا کہ ’جینیوا کنونشن کے تحت کسی گروپ کو سزا دینے کے لیے پوری آبادی کو اجتماعی سزا نہیں دی جا سکتی اور اگر ایک علاقے کا محاصرہ کر لیا جائے اور اسے پانی، بجلی، گیس سے محروم رکھا جائے تو ایک پوری آبادی کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے جبکہ اس میں شامل ہر شخص ان جرائم میں شامل نہیں جو ایک گروہ یا تنظیم نے کیے اور بین الاقوامی قانون میں اس کی اجازت نہیں۔‘

’بین الاقوامی قانون میں اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ایسا قدم جنگی جرم تصور ہوتا ہے۔‘

ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ ’جب مسلح تنازع کے دوران صرف عسکری اہداف تک محدود رہنا چاہیے جیسا کہ عسکری یونٹ یا اسلحہ خانہ۔ آپ کسی عام شہری علاقے پر میزائل نہیں داغ سکتے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایسی عسکری تنظیمیں عام شہری آبادی میں موجود ہوتی ہیں اور ایسے میں قانونی پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے جو ایک علیحدہ بحث ہے۔‘

جبری بے دخلی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اسے حالات کے تناظر میں انسانیت کیخلاف جرم تصور کیا جاتا ہے جس کی بین الاقوامی قانون میں ممانعت ہے۔ اگر کسی فوجی بیرک کے پاس رہائش پذیر آبادی کو انخلا کا کہا جائے کیوں کہ وہاں بمباری ہونے والی ہے تو یہ ایگ بات ہے لیکن ایک پورے خطے یا ملک کی آبادی کو جبری طور پر بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔‘

کیا حالیہ تنازع میں کسی فریق کیخلاف مقدمہ چل سکتا ہے؟

اہم نکتہ یہ ہے کہ ریاست فلسطین، جسے اقوام متحدہ میں آبزرور کا سٹیٹس حاصل ہے، روم سٹیچوٹ پر دستخط کر چکی ہے لیکن اسرائیل نے ایسا نہیں کیا اگرچہ کہ وہ جینیوا کنونشن کا پابند ہے۔

تو کیا ایسے میں اسرائیل کیخلاف ان جرائم پر کارروائی نہیں ہو سکتی؟

ریلوا کے مطابق ’روم سٹیچوٹ کے مطابق جب کوئی ریاست اس کا حصہ بن جاتی ہے تو بین الاقوامی کرمنل کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی زمین یا اس کے شہریوں کی جانب سے جرائم پر کاررروائی کر سکتی ہے۔‘

یعنی اگر کوئی رکن ملک یا ریاست کسی ایسے ملک کیخلاف کارروائی کرے جو روم سٹیچوٹ کا حصہ نہیں ہے تو عدالت کو رکن ملک کیخلاف کارروائی کا حق حاصل ہے۔ موجودہ تنازع میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی فلسطینی نے اسرائیل میں کوئی جرم کیا تو اس کیخلاف بین الاقوامی عدالت میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ان کے مطابق اگر کوئی اسرائیلی فلسطین میں جنگی جرائم یا انسانیت کیخلاف جرائم میں ملوث ہو تو بین الاقوامی عدالت اس کیخلاف بھی کارروائی کر سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں