پاکستانی شہریت چھوڑ کر بھارتی شہریت حاصل کرنے والا شخص جاسوسی کے الزام میں گرفتار

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارت کی ریاست گجرات کے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) نے پاکستانی شہریت چھوڑ کر انڈین شہریت حاصل کرنے والے ایک شخص کو ’پاکستان کے لیے جاسوسی‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔

گجرات پولیس کا دعویٰ ہے کہ لابھ شنکر مہیشوری ’پاکستان کے خفیہ ایجنٹوں کو انڈین فوج کے بارے اہم معلومات‘ فراہم کرنے میں مبینہ طور پر مدد کر رہے تھے۔

انسدادِ دہشت گردی سکواڈ کے مطابق یہ کارروائی انڈین ملٹری انٹیلیجنس کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ مہیشوری کو گجرات کے تارا پور گاؤں سے گزشتہ ہفتے کے اواخر میں گرفتار کیا گیا ہے۔

گرفتاری کے بعد انسداد دہشت گردی سکواڈ نے الزام عائد کیا ہے کہ مہیشوری نے پاکستانی ایجنٹوں کو مبینہ طور پر ایک انڈین سم کارڈ فراہم کرنے میں مدد کی تھی اور اِسی سم کارڈ کی مدد سے ایجنٹ انڈین فوج کے عملے کے بارے معلومات حاصل کر رہے تھے۔ حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مہیشوری نے یہ سم کارڈ پاکستانی ایجنٹوں کو اپنے انڈیا میں مقیم بعض رشتے داروں کو پاکستان کا ویزا دلانے کے عوض فراہم کیا تھا۔

مقامی پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق 53 سالہ مہیشوری پاکستان کے صوبہ سندھ کے رہنے والے ہندو تھے۔ ان کی شادی گجرات کے آنند قصبے کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاؤں تارا پور کے راٹھی خاندان میں ہوئی تھی۔ اس برادری کے لوگ انڈیا اور پاکستان میں منقسم ہیں۔ راٹھی خاندان انڈیا میں تیل اور اناج کے کاروبار سے وابستہ ہے۔

پولیس کے دعوے کے مطابق مہیشوری کی شادی تارا پور کے ایک تاجر کی بیٹی سے ہوئی تھی تاہم شادی کے کئی برس بعد تک ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی جس کے باعث وہ سنہ 1999 میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ فرٹیلیٹی ٹریٹمنٹ (یعنی مصنوعی طبی طریقے سے حمل ٹھہرانا) کے لیے طویل مدتی ویزے پر انڈیا آئے۔

اس علاج کی غرض سے وہ گجرات گئے اور پھر وہیں رہ گئے اور بعدازاں انھوں نے انڈیا کی شہریت حاصل کر لی۔ پولیس کے دعوے کے مطابق گجرات میں علاج کے باوجود ان کے ہاں اولاد نہیں ہو سکی۔

پاکستان سے انڈیا آنے والے ہندوؤں کو انڈیا کی شہریت دلانے میں مدد کرنے والے ایک کارکن ڈاکٹر اوم مہیشووری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’واجپئی حکومت کے دوران جب انڈیا اور پاکستان کے رشتے بہتر ہو رہے تھے تو اُس وقت بہت سے پاکستانی علاج معالجے کے لیے طویل مدتی ویزوں پر انڈیا آتے جاتے رہتے تھے۔‘

’مہیشوری بھی طویل مدتی ویزے پر آئے اور واپس نہیں گئے اور بلآخر سنہ 2006 کے اوائل میں انھیں انڈیا کی شہریت مل گئی۔ اپنی سسرال کی مدد سے انھوں نے وہاں کریانے کی ایک دکان کھولی اور رفتہ رفتہ ایک کامیاب بزنس مین بن گئے۔ بعدازاں انھوں نے کئی دکانیں اور مکان بنا لیے، جنھیں وہ کرائے پر دیتے تھے۔‘

تفتیشی حکام کے مطابق انڈین شہریت حاصل کرنے کے طویل عرصے بعد انھوں نے سنہ 2022 میں اپنی والدہ سے ملنے اور پاکستان میں اپنی پراپرٹی فروخت کرنے کی غرض سے پاکستان جانے کے لیے ویزہ کی درخوات دی جو منظور نہیں ہوئی۔

تاہم بعد میں پاکستان میں رہائش پزیر اپنے ایک کزن کی مدد سے انھوں نے ویزہ حاصل کر لیا جس نے، پولیس کے دعویٰ کے مطابق، انھیں انڈیا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار سے متعارف کروایا تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ ’پاکستان میں چھ ہفتے کے قیام کے دوران وہ پاکستانی خفیہ ایجنٹوں کے رابطے میں آئے۔‘

انسداد دہشت گردی سکواڈ کے سپرنٹینڈنٹ آف پولیس اوم پرکاش جت نے بی بی سی کو بتایا کہ ویزے کی درخواست مسترد ہونے کے بعد مہیشوری نے پاکستان میں رہائش پزیر اپنے کزن سے مدد مانگی جنھوں نے انھیں ویزہ دلوانے میں مدد دی۔

پاکستان کے سفر کے بعد مہیشوری نے اپنی بہن، جن کی شادی انڈیا میں ہی ہوئی ہے، اور اپنے بہنوئی کو بھی ہائی کمیشن کے اسی رابطے (کانٹیکٹ) کے ذریعے ویزا دلوایا۔

اوم پرکاش جت نے دعویٰ کیا کہ ہائی کمیشن کے اس ’کنٹیکٹ‘ نے مہیشوری کو گجرات کے ایک شخص کے ذریعے ایک سم کارڈ دیا اور کہا کہ وہ یہ سم کارڈ اپنی بہن کو دے دیں۔

سپرنٹینڈنٹ آف پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان کی تفتیش کے مطابق اُن کی بہن کو کارڈ ایکٹیویٹ کرنے کے بعد وٹس ایپ پر ایک او ٹی پی موصول کرنا تھا جسے انھیں ’کنٹیکٹ‘ کے حوالے کرنے کے لیے گہا گیا۔

حکام کے دعوے کے مطابق مہیشوری کی بہن مبینہ طور پر یہ سم کارڈ اپنے ساتھ پاکستان لے گئیں اور انھوں نے یہ سم اپنے کزن کے حوالے کر دی جو بظاہر پاکستان کے ایجنٹ کے حوالے کی گئی۔

سپرنٹینڈنٹ آف پولیس کے مطابق بعدازاں اسی سم کارڈ کے ذریعے چند انڈین آرمی اہلکاروں کو پیغامات بھیجے گئے جن میں کوڈڈ فائلز موجود تھیں اور جن کا مقصد تفصیلات حاصل کرنا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مہیشوری سے مزید پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں