ساہیوال فائرنگ: سی ٹی ڈی نے اغواء کر کے من پسند جگہ لے جا کر چاروں افراد کو مارا، بڑا انکشاف

لاہور + ساہیوال (ویب ڈیسک/خصوصی رپورٹ) سانحہ ساہیوال مقدمے کے مدعی محمد جلیل ولد بشیر کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آرمیں 16 نامعلوم افراد کو نامزدکیا گیا ہے جس میں سے 10 اہلکار باوردی جبکہ 6 اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے کو نامزد کیا گیا ہے ۔

ایف آئی آر کے مطابق صبح 8 بجکر 30 منٹ پر محمد خلیل، اپنی اہلیہ نبیلہ، بیٹی اریبہ خلیل، ذیشان ولد جاوید اختر (ڈرائیور)، بیٹے محمد عمیر، بیٹی جازبہ اور منیبہ کے ہمراہ لاہور سے بوریوالا ضلع وہاڑی جانے کیلیے نکلا، جب ان لوگوں نے اوکاڑہ بائی پاس کو کرا س کیا تو ایلیٹ کی ایک گاڑی نے جس میں سی ٹی ڈی کے اہلکار سوار تھے انہیں اسلحہ کے زور پر اغوا کیا اور انہیں اپنی من پسند جگہ قادر آباد اڈے کے قریب مین جی ٹی روڈ پر لے گئے اور مقتولین کی گاڑی پر دانستہ طور پر سوچی سمجھی اسکیم کے تحت فائرنگ کر دی

جس کے نتیجے میں محمد خلیل اس کی اہلیہ نبیلہ ،بیٹی اریبہ خلیل، ذیشان ولد جاوید اختر (ڈرائیور) جاں بحق ہو گئے ۔جبکہ بیٹا عمیر، بیٹی منیبہ اورجازبہ زخمی ہو گئے۔ دریں اثنا سی ٹی ڈی کی کارروائی کی نئی ویڈیو منظر عام پر آ گئی جس نے اہلکاروں کے جھوٹ کا پول کھول دیا، سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی کو ٹکر مار کر روکا اور سیدھی فائرنگ کر دی، گاڑی میں ذیشان اور مہر خلیل کی جانب سے جوابی فائرنگ نہیں کی گئی۔

فوٹیج مبینہ مقابلے کے وقت سڑک پر پیچھے کھڑی ایک گاڑی میں بیٹھے شہری نے موبائل سے بنائی۔ موبائل فونز سے بنائی گئی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی کو ٹکر مار کر روکا اور پہلے گاڑی سے بچوں کو اتارا جس کے چند سیکنڈ بعد اہلکاروں نے سیدھی فائرنگ کر دی۔

فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اہلکاروں نے گاڑی سے کوئی سامان نہیں نکالا اور نہ ہی سی ٹی ڈی ٹیم پر کسی موٹرسائیکل سوار کی جانب سے فائرنگ کی گئی جب کہ فائرنگ کرنے کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی سے پہلے تینوں بچوں کو اتار کر سرکاری گاڑی میں منتقل کیا اور پھر ساتھ لے گئے۔ دریں اثنا ساہیوال میں ہلاک ہونے والے مبینہ دہشت گرد ذیشان کا تعلق داعش سے ثابت ہو گیا۔

ذرائع کے مطابق سکیورٹی ایجنسیز نے ذیشان کے موبائل فون کے تجزیہ کے دوران پتا چلایا کہ وہ ایپلی کیشنز ٹیلی گرام اور تھریما کے ذریعے داعش سے رابطے میں تھا اور انکا متحرک کارکن تھا تا ہم مہر خلیل اور اسکی بے گناہ فیملی بارے سکیورٹی ایجنسیوں کو کوئی ایسی شواہد نہیں ملے جس سے ثابت ہو کہ انکا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق ہے۔

ذرائع نے کہنا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے‘ یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی افسروں کے قتل‘ علی حیدر گیلانی کے اغواءاور فیصل آباد میں 2 پولیس افسروں کے قتل میں ملوث ہے۔ ملتان میں آئی ایس آئی افسروں کے قتل میں سلور رنگ کی ہونڈا سٹی کار استعمال کی گئی‘ جس کی تلاش پولیس اور ایجنسیوں کو تھی۔ 13جنوری کو ہنڈا سٹی کار دہشت گردوں کو لے کر ساہیوال گئی‘ اس حوالے سے سیف سٹی کیمروں کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ذیشان کی سفید آلٹو بھی دہشت گردوں کی گاڑی کے ساتھ تھی اور یہ گاڑی بھی دہشت گردوں کے استعمال میں تھی‘

19 جنوری کو سیف سٹی کیمرے کی مدد سے سفید آلٹو کو مانگا کے مقام پر دیکھا جس کی اطلاع ایجنسی کو دی گئی اس وقت تک گاڑی لاہور کی حدود سے باہر نکل چکی تھی‘ اس لئے سی ٹی ڈی ٹیم ساہیوال کو دہشت گرد ذیشان کی گاڑی بارے بتایا گیا‘ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ساہیوال میں ذیشان کی گاڑی کو زبردستی روکا اور پھر سامنے سے فائرنگ کر کے فرنٹ پر بیٹھے دونوں افراد کو ہلاک کر دیا‘ بعد ازاں ٹیم نے بلیک واٹر طرز پر آپریشن کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے کار پر برسٹ مارے‘ جس سے ماں بیٹی بھی ہلاک ہو گئیں جبکہ ایک بچہ معمولی زخمی ہوا۔

سی ٹی ڈی ٹیم کو بچ جانے والے بچوں سے بات چیت پر اصل حالات کا علم ہوا جس کے بعد سی ٹی ڈی حکام اس معاملے کو کور کرنے کیلئے بار بار بیان بدلتے رہے لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ سی ٹی ڈی پنجاب کے مشکوک مقابلے کی مختلف پہلوﺅں پر تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ فائرنگ کے وقت سی ٹی ڈی اہلکار نشے میں تو نہیں تھے؟ اور یہ کہ کہیں اس واقعہ میں ذاتی دشمنی کا عنصر تو شامل نہیں؟

اس حوالے سے اب تک جتنے شواہد سامنے آئے ہیں‘ ان کے مطابق بظاہر یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا‘ جس میں سفاک سی ٹی ڈی اہلکاروں نے معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو بے دردی سے قتل کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں