بھارت میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کی ریلی سے حماس رہنما کے خطاب پر تنازع

نئی دہلی (ڈیلی اردو) بھارت کی ریاست کیرالہ کے شہر ملاپورم میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیےریلی سے غزہ کی عسکری تنظیم حماس کے رہنما خالد مشعل کی ورچوئل شرکت سے ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ اس وقت کیرالہ سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔

ملاپورم کی ریلی کا انعقاد ’جماعتِ اسلامی ہند‘ کے یوتھ ونگ ’یوتھ سولیڈیرٹی موومنٹ‘ نے کیا تھا۔

اس سلسلے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں خالد مشعل کو خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

مرکز میں حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے اس پر سخت ردِعمل ظاہر کیا ہے۔

اس نے ریاست کی بائیں بازو کی حکومت کے وزیرِ اعلیٰ پنیاری وجئن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ’انڈیا‘ ملک دشمن اور ہندو مذہب مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

یوتھ سولیڈیرٹی موومنٹ کے ریاستی صدر صہیب سی ٹی نے خالد مشعل کی ورچوئل شرکت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی حماس کے رہنما کیرالا کے پروگراموں سے خطاب کرتے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حماس ایک مزاحمتی تحریک ہے۔ وہ ایک ایسی جماعت ہے جس نے غزہ میں ہونے والے انتخابات میں متعدد نشستیں بھی جیتی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حماس نامی تنظیم بھارت میں متحرک نہیں ہے اور نہ ہی یہاں اس پر پابندی ہے۔

ان کے بقول ریلی میں خالد مشعل کی شرکت قانون کے خلاف نہیں ہے۔ یہاں ابھی مزید ریلیاں منعقد کی جائیں گی جن میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا جائے گا۔

ادھر بی جے پی کے ریاستی صدر کے سریندرن نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ یہ بہت خطرناک ہے کہ ’فلسطین بچاؤ‘ تحریک کی آڑ میں ایک دہشت گرد تنظیم کی عزت افزائی کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول وزیرِ اعلیٰ پنیاری وجئن حکومت کی پولیس کہاں ہے۔

انہوں نے وزیرِ اعظم کے دفتر کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔

جب کہ کیرالہ بی جے پی کی نائب صدر وی ٹی ریما نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس خبر سے صدمہ پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قابلِ مذمت ہے کہ سیکولر بھارت کی ایک جنوبی ریاست کیرالہ میں ان کے بقول “اسلامی دہشت گردوں” کے ایک گروپ نے اپنی اصل ذہنیت دکھا دی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ حماس نے بغیر کسی نوٹس کے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔

بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری کیلاش وجے ورگیئے نے اسے ریاستی حکومت کی ناکامی قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندوتوا کے لیے ایک چیلنج ہے اور قابل مذمت ہے۔

انہوں نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں سے کہا کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔

بی جے پی کے قومی ترجمان شہزاد پونہ والا نے سوال کیا کہ کیا اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ اس کی مذمت کرے گا۔ کیا کانگریس اس کی مذمت کرے گی۔ انڈیا اتحاد حماس کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟ جس نے اسرائیل میں سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ووٹ بینک کی سیاست کے ناطے دہشت گردوں کو پلیٹ فارم دیا جا رہا ہے۔ فلسطین کے نام پر حماس کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔

حزبِ اختلاف نے فوری طور پر حماس اسرائیل جنگ بند کرنے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد پر ووٹنگ کے دوران بھارت کی غیر حاضری پر مودی حکومت کی مذمت کی ہے۔

یہ قرارداد 28 اکتوبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی تھی جس پر ووٹنگ کے دوران بھارت ان 45 ملکوں میں شامل تھا جنہوں نے ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے کا آپشن استعمال کیا۔

کانگریس رہنما پریانکا گاندھی نے بھارت کے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اس معاملے پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کیا اور خاموشی اختیار کی۔ جب کہ قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خوراک، پانی، بجلی، طبی خدمات اور مواصلات کی سہولت منقطع کر دی گئی ہے اور ہزاروں مرد خواتین اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری کے سی وینو گوپال نے بھی ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے پر مودی حکومت کی مذمت کی۔

راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما لالو پرساد یادو نے کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ بھارت نے انسانیت، جنگ بندی اور عالمی امن کے سلسلے میں سب سے آگے رہنے کے بجائے ڈھلمل رویہ اپنایا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مرکزی حکومت خارجہ پالیسی کے ساتھ کھلواڑ بند کرے۔

ادھر ’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

بیان میں ووٹنگ کے دوران بھارت کی غیر حاضری کو فلسطینی کاز پر بھارت کی دیرینہ حمایت کو نظرانداز کرنے سے تعبیر کیا گیا۔

اسی درمیان بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی سے ہفتے کو مغربی ایشیا کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔

وزیرِ اعظم مودی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں اس کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صدر السیسی سے گفتگو کی ہے۔

ان کے بقول ہم نے دہشت گردی، تشدد اور انسانی جانوں کے نقصان پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے امن و استحکام کی فوری بحالی اور انسانی امداد کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کی۔

مصری صدر کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ہنماؤں نے غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے تناظر میں پیدا شدہ صورتِ حال پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں