‘جاسوسوں’ کو سزائے موت پر بھارت اور قطر کے تعلقات کشیدہ

نئی دہلی + دوحہ (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی/ڈی پی اے) ایک قطری کمپنی میں ملازم بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو گزشتہ ہفتے قطر کی ایک عدالت نے “جاسوسی کے الزامات” میں موت کی سزا سنائی تھی۔ اس پیش رفت نے بھارت اور قطر کے سفارتی تعلقات میں پیچیدہ چیلنجز پیدا کردیے ہیں۔

قطری عدالت کی جانب سے بھارتی بحریہ کے سابق آٹھ افسروں کو موت کی سزا سنائے جانے کے چند دن بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے نئی دہلی میں ان افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور وعدہ کیا کہ حکومت ان کی رہائی کے لیے “تمام ممکنہ کوششیں” کرے گی۔

جے شنکر نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا، “حکومت اس کیس کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ میں متاثرہ خاندان کے خدشات اور تکلیف میں پوری طرح شریک ہوں اور ہماری حکومت ان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے تمام کوششیں جاری رکھے گی۔”

ان لوگوں کو سزائے موت کیوں دی گئی؟

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بھارتی بحریہ کے سابق افسران خلیج میں قائم ایک نجی کمپنی الظاہرہ کے لیے کام کرتے تھے۔ الظاہرہ کی ویب سائٹ کے مطابق کمپنی ایرواسپیس، سکیورٹی اور دفاعی شعبوں میں “مکمل معاونتی حل” فراہم کرتی ہے۔

نہ تو نئی دہلی نے اور نہ ہی دوحہ نے الزامات کی تفصیلات بتائی ہیں تاہم بھارتی روزنامہ “دی ہندو” کے مطابق ان افراد پر، جنہیں اگست 2022 میں دوحہ میں گرفتار کیا گیا تھا، ایک “تیسرے ملک” کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ جب کہ روزنامہ “ٹائمز آف انڈیا” کا کہنا ہے کہ “مختلف رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان افراد پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔”

خبررساں ادارے رائٹرز نے بھی بھارت اور قطر میں بغیر نام ظاہر کیے گئے حوالوں کی بنیاد پر کہا ہے کہ ان افراد پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ایک انٹلیجنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ “اگرچہ مخصوص الزامات کو عوامی طور پر کبھی ظاہر نہیں کیا جاتا ہے لیکن انہیں قید تنہائی میں رکھا جانا سکیورٹی کے متعلق ان کے ممکنہ جرائم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔”

اس سے بھارت اور قطر کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

قطر خلیج فارس میں گیس سے مالامال ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کے تاریخی دوستانہ تعلقات ہیں اور یہ تجارت کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ بھارت اپنی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کا 40 فیصد قطر سے حاصل کرتا ہے۔

اس کے علاوہ قطر میں رہنے والی بڑی تعداد میں بھارتی برادری اپنے ملک کے لیے غیر معمولی ترسیلات زر فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔

اس تناظر میں سابق سفارت کاروں اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ سزائے موت کے فیصلے نے بھارت کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور یہ بھارت اور قطر کے باہمی تعلقات کے لیے ایک حساس معاملہ بن گیا ہے۔

سابق سفارت کار اور قطر میں مقرر کی جانے والی پہلی بھارتی خاتون سفیر دیپاگوپالن وادھوا کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تمام بھارتیوں کے لیے ایک صدمہ ہے اور بھارتی حکومت کے بیانات اور عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کیس کو سب سے زیادہ ترجیح دی جارہی ہے۔

وادھوا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، “قطر میں سات لاکھ سے زیادہ بھارتی رہتے ہیں، جنہوں نے خلیجی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور دونوں ملکوں میں قریبی اقتصادی اور سیاسی تعلقات رہے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ قطر اور بھارت اس معاملے کو “باہمی تعلقات کے وسیع تر مفادات” کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔

وادھوا کا مزید کہنا تھا کہ “ہمارے شہریوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ انہیں ہر طرح کی قانونی مدد فراہم کی جائے گی اور مجھے یقین ہے، جیسا کہ معمول بھی ہے، اعلیٰ ترین سطحوں تک اپیل کی جائے گی۔”

بھارت اور قطر کے تعلقات کا امتحان

نئی دہلی میں جواہر لال یونیورسٹی میں سینٹر فار ویسٹ ایشیئن اسٹڈیز کے استاد مدثر قمر کا کہنا تھا کہ الزامات کی مکمل فہرست کا پتہ لگانا، قانونی سیاق و سباق اور مضمرات پر غور کرنا اورملزمان کی جان بچانے کے لیے ممکنہ قانونی، سفارتی اور سیاسی طریقے تلاش کرنا فوری ترجیحات ہیں۔

مدثر قمر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،” قطری عدالت کی جانب سے، اب تک نامعلوم الزامات کی بنیاد پر بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو سنائی گئی سزا بھارت اور قطر کے درمیان، بالخصوص اس کیس کی حساسیت کے مدنظر، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے لیے ایک سنگین امتحان کا باعث بن سکتی ہے۔”

انہوں نے کہا کہ،” سزائے موت کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ الزامات کی نوعیت سنگین ہے۔ حکومت کے ردعمل پر غور کیا گیا ہے، اور اس معاملے کی پیچیدگی اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر غور کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں سازگار نتیجہ حاصل کرنے کے لیے سفارتی اور سیاسی طورپر مناسب انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔”

دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کے علاوہ سیاسی تعلقات بھی ہیں جس کا ثبوت حالیہ برسوں میں اعلیٰ سطحی دوروں کے دوران دیکھنے کو ملا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جون 2016 میں قطر کا دورہ کیا تھا اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے ایک سال قبل بھارت کا سرکاری دورہ کیا تھا، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات بھی مزید مستحکم ہوئے ہیں۔

بھارت قطر دفاعی تعاون کا معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون میں ایک اہم سنگ میل کے طورپر کام کرتا ہے۔

آگے کا راستہ کیا ہے؟

قطر کے لیے سابق بھارتی سفیر کے پی فابیان کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے تمام ممکنہ متبادل کا جائزہ لے گا اور جتنا جلد ممکن ہو قطر کے امیر سے باضابطہ طور پر رابطہ کرنا سمجھداری کی بات ہو گی۔

فابیان کے خیال میں قطر بھارت کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات سے واقف ہے اور امید ظاہر کی کہ بحریہ کے سابق اہلکاروں کو معاف کر دیا جائے گا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، “اسلامی ملکوں میں رمضان کے مقدس مہینے میں معافی دینے کا رواج ہے۔ خوشی قسمتی سے قطر میں معافی کی درخواستیں طویل افسر شاہی کی شکار نہیں ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں امیر قطر کے دفتر کی سفارش ہی کافی ہوتی ہے۔”

فابیان کا کہنا تھا کہ دوحہ میں پہلے جوائنٹ سکریٹری اور پھر سفیر کے طورپر کام کرنے کے دوران اپنے تجربات کی بنیاد پر انہیں قوی امید ہے کہ ان آٹھوں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں