کرم میں فرقہ ورانہ جھڑپیں 9 روز سے جاری، 55 ہلاکتیں، 105 زخمی

پشاور + اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں شیعہ سنی گروپوں کے درمیان گزشتہ 9 روز سےجھڑپیں جاری ہیں اور گزشتہ رات جھڑپوں میں مزید 6 افراد ہلاک اور 10 زخمی ہوئے۔

پولیس کے مطابق گزشتہ 9 روز کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 55 اور زخمیوں کی تعداد 105 ہوگئی ہے، شیعہ سنی قبائل ایک دوسرے کے خلاف بھاری اور خود کار ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کے باعث علاقے میں آمد و رفت کے راستے، تعلیمی ادارے، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند ہے۔

پولیس کے مطابق جرگے کی کامیاب کوششوں کے بعد شام سے صدا، بالشخیل کے درمیان فائر بندی ہوگئی جبکہ مزید 8 علاقوں میں فائر بندی کے لیے جرگا، ضلعی انتظامیہ اور فورسز کی کوششیں جاری ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی نگران حکومت کے وزیرِ اطلاعات فیروز جمال کاکا خیل نے اتوار کو برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ زمین کے تنازع پر تصادم کے بعد جرگے کے ذریعے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور جلد صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔

ڈی پی او کرم نے بی بی سی پشتو کے افتخار خان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’جرگے کی سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد علاقے میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور آج 80 فیصد جگہ پر فوج کو تعینات کیا جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’موبائل اور پی ٹی سی ایل نیٹ ورک کی بحالی میں ابھی کچھ وقت لگ سکتا ہے۔‘

پارا چنار کے مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یوں تو کچھ مرکزی علاقوں میں سفید جھنڈے لہرا کر سیز فائر کا اعلان کیا گیا لیکن دور دراز پہاڑی علاقوں میں اب بھی فائرنگ کی آواز وقتاً فوقتاً آ رہی ہے۔‘

ضلع کرم میں تین مہینے پہلے بھی مختلف قبائل کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں جانی نقصانات ہوئے تھے اور ہھر امن کمیٹیوں کے ذریعے امن قائم کر دیا گیا تھا۔

حالیہ جھڑپوں کے بعد ضلع کرم کے داخلی اور خارجی راستے بند ہیں۔ علاقے میں نیم فوجی دستوں کے اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی گزشتہ تین روز سے بند ہے۔ علاقے میں شدید تصادم کے باعث عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔

’فائرنگ اور دھماکوں سے بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں‘

پارا چنار میں موجود ایک متاثرہ شخص نے بی بی سی کے صحافی زبیر خان کو بتایا تھا کہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ سارے علاقے میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں۔‘

’میرے بزرگ والد کی ادوایات ختم ہو چکی ہیں اور ہم باہر جا کر وہ بھی نہیں لاسکتے ہیں۔ کرفیو کا اعلان تو نہیں ہوا ہے مگر ہم باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ تمام مارکیٹیں اور دکانیں بند ہیں۔‘

پاراچنار سے تعلق رکھنے والے پشاور میں مقیم ایک سرکاری ملازم کے مطابق لوئر کرم کا تقریباً سارا علاقہ ہی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔

’دونوں گروپ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو چکے ہیں۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے گاؤں اور علاقوں پر بھاری اسلحے سے فائرنگ کی جا رہی ہے۔ جس سے عام لوگ بہت متاثر ہو رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ساری صورتحال میں ہمارے اہل خانہ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے کمروں سے بر آمدوں تک بھی نہیں آسکتے ہیں کہ فائر کی ہوئی گولیاں ہماری آبادی اور گھروں سے گزر رہی ہیں۔‘

’علاقے کے سارے بازار بند ہیں۔ اکثر گھروں میں ضروری اشیاء خوردونوش بھی ختم ہو چکی ہیں۔ علاقے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ بند ہونے سے بھی لوگ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے اہلخانہ سمیت کئی لوگ علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں مگر خارجی راستے بند ہونے اور ٹرانسپورٹ کے علاوہ پیٹرول، ڈیزل دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ علاقہ بھی نہیں چھوڑ پا رہے ہیں۔ انتظامیہ اور حکومت کو چاہیے کم از کم وہ اتنا تو کرے کہ لوگ اگر علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں تو بحاظت چھوڑ سکیں۔‘

زمین کی ملکیت پر تنازع پرتشدد تصادم میں کیسے بدلا؟

مقامی افراد سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ضلع کرم میں چند ماہ سے کشیدگی جاری ہے۔ اس تصادم کا آغاز زمین کے ایک ٹکڑے کی ملکیت پر تنازعے سے ہوا تھا۔ اس حالیہ تصادم سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے ہیں۔

زمین کی ملکیت پر تنازعے سے متعلق اس وقت ایک جرگہ بھی ہوا اور دونوں گروپوں کے درمیان فائر بندی ہوئی مگر بعدازاں یہ تنازع فرقہ واریت کی طرف بڑھتا گیا۔

جرگے میں ہونے والے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی اور لوگ حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں 12 کروڑ روپے جرمانے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔

حالیہ تصادم کا آغاز ایک گروہ کی جانب سے دوسرے گروہ کے خلاف دھرنوں اور مظاہروں کے بعد ہوا ہے جس میں پہلے ایک مزدور کی ہلاکت ہوئی اور اس کے بعد ایک اور شخص اور پھر گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کا الزام دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا۔

ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات اور لڑائیوں کی تاریخ طویل ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد اس خطے میں تقریباً ہر 10 سال کے بعد بڑے فسادات رونما ہوئے جس میں 1961، 1971، 1987، 1996 اور 2007 شامل ہے۔

سنہ 2007 میں شروع ہونے والے فسادات اپنی تاریخ کے بدترین فسادات کہے جاتے ہیں جو کہ 2010 اور 2011 میں بھی جاری رہے تھے۔

عمومی طور پر ان فسادات کا اختتام بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کے بعد قبائل کے مابین جرگوں کے ذریعے ہی سے ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں