اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے عرب ممالک میں مخالفت بڑھنے لگی

ریاض (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا اثر خطے کے دیگر عرب ممالک پر بھی پڑ رہا ہے۔ وہ عرب ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر ہیں یا جو ان تعلقات کو بہتر بنانے پر غور کر رہے ہیں وہاں اس بات کے لیے عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو ختم کیا جائے۔

سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے شروع ہونے والی اسرائیل حماس جنگ کو تین ہفتے گزر چکے ہیں۔ جیسے جیسے جنگ میں شدت آئی ہے مختلف ممالک کے بیانات بھی تبدیل ہوئے ہیں۔

عرب رہنماؤں کی جانب سے اسرائیل کے حالیہ حملوں کی مذمت کی گئی ہے اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں پر مزید تنقید کرتے ہوئے امن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مراکش کے دارالحکومت رباط اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکلے۔ اسی طرح بحرین کے دارالحکومت مناما میں گزشتہ ماہ اسرائیل کے سفارت خانے کے باہر سینکڑوں لوگ جمع ہوئے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پرچم تھامے ہوئے تھے۔

بحرین ایک ایسا ملک ہے جہاں احتجاج کی اجازت ملنا مشکل ہے لیکن اسرائیل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مارچ کے دوران پولیس کی نفری بھی موجود رہی۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ مظاہرے جو پورے مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے مظاہروں کی عکاسی کرتے ہیں، ان حکومتوں کے لیے ایک المیہ ہے جنہوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ قریبی فوجی اور اقتصادی تعلقات کے فوائد حاصل کیے ہیں۔

مصر ،جس کے اسرائیل کے ساتھ دہائیوں سے تعلقات ہیں، وہاں بھی مختلف شہروں اور جامعات میں مظاہرے ہوئے اور ریلیاں نکالی گئیں جب کہ کچھ مقامات پر “اسرائیل مردہ باد” کے نعرے بھی لگائے گئے۔

مصر کی وزارتِ خارجہ نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ وہ عام شہریوں پر کہیں بھی ہونے والے حملوں کی مذمت کرتا ہے۔ لیکن بعد ازاں اس نے اسرائیل کو تشدد کو بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیا اور غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی کوششوں کو اجاگر کیا۔

اس کے علاوہ تیونس میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے ایک مسودہ قانون پیش کیا ہے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کو جرم قرار دے گا۔

مراکش اور بحرین میں عوامی غم و غصہ ایک الگ تناظر میں ہی ہے۔ کیوں کہ حقوق کے سرگرم کارکن مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات کے معاہدوں کو ختم کیا جائے۔ اس احتجاج نے حکومتوں اور رائے عامہ کے درمیان اختلاف کو واضح کردیا ہے۔

خیال رہے کہ سال 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں مختلف عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے جنہیں ‘ ابراہم اکارڈز ‘کا نام دیا گیا تھا۔

ابراہم اکارڈز کا مقصد عرب ممالک میں اسرائیل کو وسیع پیمانے پر تسلیم کرنا شامل تھا اور ان معاہدوں نے بحرین، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدوں اور فوجی تعاون کی راہ ہموار کی تھی۔

اس معاہدے کو مراکش کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا کیوں کہ امریکہ اور بالآخر اسرائیل نے متنازع مغربی صحارا ریجن پر مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کرلیا تھا۔

البتہ مراکش کی وزارتِ خارجہ نے ابراہم معاہدے یا حالیہ احتجاج پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

مذکورہ معاہدے کی وجہ سے ہی واشنگٹن نے سوڈان کو دہشت گردی کے لیے ریاستی سہولت کاری کی فہرست سے نکال دیا تھا جس نے ملک میں جمہوریت نواز تحریک اور بڑھتی مہنگائی سے لڑنے والی حکمران فوجی جنتا کو ایک نئی زندگی دی تھی۔

البتہ اسرائیل اور حماس جنگ کے خلاف سوڈان اور متحدہ عرب امارات میں بڑے مظاہرے نہیں دیکھے گئے۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کو ابتدائی طور پر “سنگین تصادم” قرار دیا تھااور اس کے وزیر خزانہ نے صحافیوں کو کہاتھا کہ ملک تجارت اور سیاست کو ایک دوسرے سے نہیں ملاتا۔

تاہم منگل کو جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل کے حملے کے بعد متحدہ عرب امارات نے خبردار کیا کہ “اندھا دھند حملوں کے نتیجے میں خطے میں ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوں گے۔”

مختلف عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بعد یہ امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے تھے کہ سعودی عرب بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرلے گا۔البتہ موجودہ حالات میں اب اس کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔

کونسل آن فارن ریلیشنز میں مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ اسٹڈیز کے ایک سینئر فیلو اسٹیون کک نے اکتوبر میں خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کو بتایا تھا کہ حالیہ جنگ اور خطے میں ہونے والے مظاہروں کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔

ان کے بقول کم از کم ایک مدت کے لیے تعلقات معمول پر آنے کی یہ متحرک رفتار کم ہوجائے گی یا رک جائے گی۔

البتہ تعلقات معمول پر لانے کے مخالف لوگوں کا کہنا ہے کہ مظاہروں سے واضح ہوتا ہے کہ معاہدوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حکومتی جیت نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

مراکش کے العدل والانصاف گروپ کے قومی سیکریٹری ابوشتا موساعف کا کہنا ہے کہ “حماس دہشت گرد نہیں ہے۔ وہ نو آبادیات کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ تصور کریں کوئی آپ کے گھر میں گھس جائے تو آپ کیسے برتاؤ کریں گے؟ مسکرائیں گے یا اسے طاقت سے باہر نکالیں گے؟”

العدل والانصاف ایک کالعدم لیکن روادار اسلامی ایسوسی ایشن ہے جو طویل عرصے سے فلسطین کاز کو سپورٹ کر رہی ہے۔یہ گروپ بادشاہ محمد ششم کی ریاست اور مذہب کے سربراہ کے طور پر دہری اتھارٹی کو مسترد کرتا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسے ملک میں منظم ہے جہاں بادشاہت کو کمزور کرنا غیر قانونی ہے۔

البتہ مراکش کا رویہ تعلقات معمول پر لانے کے مخالفین کے ساتھ ہمیشہ سے اتنا نرم نہیں رہا۔ اس جنگ سے قبل پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ اور دھرنا دینے والوں کے خلاف حکام نے کارروائی کی جب کہ مراکش کے شہر کاسابلانکا میں ایک جج نے ایک شخص کو اس لیے پانچ سال کی سزا دی تھی کیوں کہ اس نے تعلقات معمول پر لانے پر تنقید کی تھی۔

مگر اب قانون نافذ کرنے والے اہل کار زیادہ تر ایک طرف کھڑے رہتے ہیں کیوں کہ روازنہ بڑے احتجاج ہو رہے ہیں۔

ابوشتا موساعف نے کہا کہ تعلقات معمول پر لانا ریاست کا منصوبہ ہے، عوام کا نہیں۔

بحرین کی صورتِ حال

اگر بحرین کی بات کی جائے توہ وہاں 2011 میں عرب اسپرنگز کے بعد سے مظاہروں پر پابندی ہے۔ یہ پابندی اس وقت عائد کی گئی تھی جب مصر، شام، تیونس اور یمن میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

البتہ حالیہ ہفتوں میں بحرین میں مظاہروں کی اجازت دی گئی ہے۔

لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے بحرین کی کالعدم الوفاق پارٹی کے سابق رہنما جواد فیروز کا کہنا ہے کہ اب لوگ سڑکوں پر آکر اور مظاہروں میں حصہ لے کر کچھ خطرہ مول لے رہے ہیں۔ ان کے بقول حکومتیں لوگوں کو اکٹھا ہونے کی اجازت دے کر لوگوں کے غصے کو کچھ کم کر رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں