اسرائیل غزہ جنگ: مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں امریکی سفارتکاری کتنی کامیاب ہو سکتی ہے؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکی صدر جو بائیڈن کا کسی بھی جنگی علاقے میں براہ راست پہنچ جانا کوئی عام بات نہیں لیکن اسرائیل میں حماس کے حملے میں 1400 اسرائیلی اور دیگر غیر ملکی شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل جا پہنچے۔

اپنے اس دورے میں انھوں نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی دہائیوں پرانی وابستگی کا ایک بار پھر اظہار کیا اور کہا کہ بحران کی اس گھڑی میں امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔

صدر بائیڈن کے دورہ اسرائیل سے پہلے اور بعد میں کئی سینیئر امریکی سفارتی اور دفاعی حکام نے اسرائیل کا دورہ کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان اتحاد کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ لیکن دنیا کے طاقتور ترین ملک کی حمایت کے باوجود اسرائیل کے خلاف حماس کے حملے کو ٹالا نہیں جا سکا۔

کئی دہائیوں سے امریکہ کی قیادت میں ’دو ریاستی نظریہ یعنی اسرائیل کے ساتھ مل کر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔

اس کا مقصد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو الگ الگ ریاستیں بنا کر مشرق وسطیٰ کے مسئلے کو حل کرنا تھا تاہم اس کا حل نہ نکل سکا۔

ہم نے یہاں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارت کاری کتنی کامیاب ہو سکتی ہے۔

بحران میں سفارتکاری

نیویارک ٹائمز کے واشنگٹن کے نامہ نگار ڈیوڈ سینگر کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کے اسرائیل کے دورے کی تین وجوہات تھیں۔

پہلی وجہ عوامی سطح پر یہ پیغام دینا تھا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور ساتھ ہے یہ واضح کرنا تھا کہ حماس کا یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا جس نے اسرائیل کو اسی طرح ہلا کر رکھ دیا تھا جس طرح 9/11 کے حملوں نے امریکہ کو ہلایا تھا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ بنیامین نتن یاہو کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ دنیا میں جنگ کے حوالے سے تاثرات بدل چکے ہیں۔ ’ہم انھیں غزہ کے ان فلسطینی باشندوں کی مشکل صورتحال کے بارے میں بھی یاد دلانا چاہتے تھے جو غزہ سے باہر نہیں جا سکے ہیں۔‘

یعنی اس کا مقصد اسرائیل کو تحمل سے کام لینے پر آمادہ کرنا تھا تاکہ اس دوران غزہ تک انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ نہ آئے۔

ان کا مقصد اسرائیل کو کسی بھی فوجی کارروائی میں بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھنے کی ترغیب دینا بھی تھا۔

ڈیوڈ سینگر نے کہا، ’وہ چاہتے تھے کہ ایک سانحے کا ردعمل دوسرے سانحے کا باعث نہ بنے۔ وہ اس بات پر تفصیل سے بات کرنا چاہتے تھے کہ حماس کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے حملے دوبارہ نہ ہوں لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان معصوم فلسطینیوں کی حفاظت کی جائے جو حماس کی فوجی کارروائی کے نتائج کی حمایت نہیں کرتے اور ان دونوں مقاصد کو کیسے حاصل کیا جائے۔‘

لیکن یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب پیچیدہ اور مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال میں کوئی بھی آسانی سے نہیں دے سکتا۔

جہاں اسرائیلی شہری بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں وہیں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر سے اب تک آٹھ ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

خدشہ ہے کہ یہ تنازع غزہ اور اسرائیل سے آگے پھیل سکتا ہے۔ اسی لیے امریکہ نے اپنے طیارہ بردار جنگی جہاز اس علاقے میں بھیجے ہیں اور کئی فوجی دستوں کو تعیناتی کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔

ڈیوڈ سینگر نے کہا، ’امریکہ نے طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ اور یو ایس ایس ڈوائٹ آئزن ہاور جنگی کشتیوں کے گروپوں کو خطے میں تعینات کیا ہے تاکہ خطے کی دیگر طاقتوں کو جنگ میں کودنے سے روکا جا سکے اور اگر علاقے میں دوسرا محاذ کھل گیا تو یہ کشتیاں جوابی کارروائی کر سکتی ہیں۔

’بائیڈن حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر اسرائیلی افواج غزہ میں الجھ گئیں تو لبنان میں موجودعسکریت پسند گروپ حزب اللہ اسرائیل کے خلاف حملے کر سکتی ہے۔ حزب اللہ کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔‘

پچھلے کئی سالوں میں امریکہ نے دو الگ ریاستوں کے قیام سے ہٹ کر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے تو اسرائیل کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف قدم اٹھانے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔

تاہم یہ دونوں مقاصد حاصل نہیں ہو سکے اور فی الحال مشرق وسطیٰ کے بحران میں امریکہ کے ملوث ہونے کے بارے میں رائے منقسم ہے کیونکہ لوگ نہیں چاہتے کہ امریکہ دور دراز ممالک میں لڑی جانے والی ایک اور جنگ میں ملوث ہو۔

صدر بائیڈن نے حال ہی میں اس موضوع پر قوم سے خطاب کیا تھا۔

ڈیوڈ سینگر کے مطابق ’اوول آفس سے دی گئی تقریر میں صدر بائیڈن نے یوکرین کو آزاد رکھنے اور اسرائیل کی سلامتی کے بارے میں بات کی تھی اور کہا تھا کہ ان جنگوں میں روس ایک ملک ہے اور حماس شدت پسند گروہ ہے لیکن دونوں جمہوریت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

جمہوریت کو مضبوط بنانے میں دنیا کی قیادت بائیڈن حکومت کی سفارت کاری کا ایک اہم حصہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ یہ کام خود کر پائے گا؟ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو امریکہ میں دونوں فریق اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل کے درمیان خصوصی تعلقات

امریکہ اسرائیل تعلقات کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ہم نے پالیسی ساز تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز میں مشرق وسطیٰ کے مطالعہ کے ایک سینئر محقق سٹیون کک سے بات کی ہے۔

سٹیون کک کی رائے یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے لوگوں کی قربت ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر استوار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شروع سے ہی امریکہ پروٹسٹنٹ مشنری یہودیوں کے لیے ایک وطن کے تصور پر یقین رکھتا ہے۔ اس کا خواب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے تین سال بعد پورا ہوا۔

ان کے مطابق عرب اقوام کی مخالفت کے باوجود اقوام متحدہ نے فلسطین میں یہودیوں کو وطن دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین پہلے غیر ملکی رہنما تھے جنھوں نے مئی 1948 میں اسرائیل کی نو تشکیل شدہ قوم کو تسلیم کیا۔

’صدر ٹرومین کے لیے یہ انصاف کا معاملہ تھا۔ انھوں نے بہت سے پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ یہودیوں کو کیا تکلیفیں اٹھانی پڑیں۔ وہ خود پروٹسٹنٹ تھے اور پروٹسٹنٹ چرچ یہودی ریاست کی حمایت کرتا ہے۔

جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان عالمی بالادستی کے لیے کشمکش جاری تھی تو اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اچھا اتحادی بن گیا۔ امریکہ میں بھی اسے پسند کیا جا رہا تھا۔ یہودی بہت سی ریاستوں میں بڑی تعداد میں موجود تھے اور خوشحال ہو رہے تھے۔ یہودی برادری انتخابی نقطہ نظر سے بھی اہم تھی۔

اسی دوران سوویت یونین کے حمایت یافتہ کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں صدر ٹرومین کے کئی مشیر خارجہ پالیسی میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان توازن چاہتے تھے۔ بعد میں صدر آئزن ہاور کی حکومت نے بھی اس توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس دوران امریکہ اسرائیل کو اقتصادی اور فوجی امداد دیتا رہا۔

لیکن 1960 میں جان ایف کینیڈی کے صدر بننے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات نئی جہتوں پر پہنچ گئے۔ دراصل صدر کینیڈی نے پہلی بار امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی تعریف کی تھی اور اسے ایک خاص رشتہ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس پالیسی کے ذریعے امریکہ فرانس کی مدد سے جوہری ہتھیار بنانے کی اسرائیل کی خواہش پر بھی نظر رکھنا چاہتا تھا۔

سٹیون کک کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو وہ مل گیا جو وہ چاہتا تھا۔ وہ امریکہ کے ساتھ سکیورٹی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

صدر کینیڈی کو 1963 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے بعد اقتدار میں آنے والے صدر لنڈن جانسن نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا شروع کیا۔

1967 میں اسرائیل اور پڑوسی عرب ممالک شام، مصر اور اردن کے درمیان چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے فتح حاصل کی۔ یہی نہیں بلکہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا۔

یاد رہے کہ یروشلم میں ایسے مذہبی مقامات ہیں جو عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے مقدس ہیں۔ اسرائیل نے مغربی کنارے پر بھی قبضہ کر لیا جو پہلے اردن کا حصہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مصر کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کردیا جس کی وجہ سے وہاں کے ہزاروں فلسطینی اسرائیلی انتظامیہ کے دست نگر ہو گئے۔

سٹیون کک کا خیال ہے کہ جس طرح سے اسرائیل نے سوویت یونین کے حمایت یافتہ عرب ممالک کو میدان جنگ میں آسانی سے شکست دی اس کے بعد یہ سوچا جانے لگا کہ اسرائیل اس خطے میں بہت کام آ سکتا ہے۔

عرب اسرائیل جنگ کے بعد جہاں اسرائیل اور امریکہ قریب آئے، فلسطینیوں میں اسرائیل کے خلاف غصہ بڑھ گیا اور دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک میں تشدد اور سفارتی چالوں کا ایک نیا باب شروع ہو گیا۔

امن کی تلاش

امریکہ میں قائم تھنک ٹینک سٹیمسن سنٹر کی سینیئر محقق ایما راشفورڈ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان گذشتہ دہائیوں میں کئی جنگیں ہو چکی ہیں لیکن 1967 اور 1973 کی جنگیں خطے کے مستقبل کا تعین کرنے میں اہم ہیں۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے امن کے قیام کے لیے خطے کے کئی سفارتی دورے کیے اور امریکا کو مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری میں ایک بڑے رہنما کا کردار دیا حالانکہ امریکہ واضح طور پر اسرائیل کی حمایت میں کھڑا رہا۔

’امریکہ نے اسرائیل کو اسلحہ دیا اور اس کے نتیجے میں عرب ممالک نے اس پر تیل کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد امریکہ اسرائیل اور عرب ممالک کے حوالے سے اپنی سفارت کاری میں کچھ توازن لایا۔

1973 کی عرب اسرائیل جنگ ختم ہوئی لیکن اس سے فلسطینیوں کی زندگیوں اور امنگوں پر کوئی فرق نہیں پڑا لیکن پانچ سال بعد امریکہ کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ ضرور نکلا۔ امریکہ نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی سہولت فراہم کی جس کے تحت مصر کو صحرائے سینائی میں اس کی زمین واپس ملی اور بدلے میں اس نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

ایما راشفورڈ کہتی ہیں ’اس وقت تک عرب ممالک اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ ایسے میں مصر کا مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرنا اور زمین کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک اہم قدم تھا۔

لیکن 1979 میں ایران میں شاہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات ایک بار پھر بدل گئے۔ یعنی ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات میں دراڑ آ گئی۔

ایما راشفورڈ کہتی ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد لبنان میں حزب اللہ جیسے شدت پسند گروپ مضبوط ہوئے۔ یہ نہ صرف اسرائیل اور امریکہ کے لیے تشویش کا باعث تھا بلکہ اس مسئلے کو دہشت گردی سے بھی جوڑ دیا گیا۔

1980 کی دہائی میں اسرائیل اور امریکہ دونوں لبنان میں فوجی کارروائیوں میں ملوث ہو گئے۔ اسی دوران فلسطین کے مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف تحریک انتفادہ (Intifada ) شروع ہوئی۔

تاہم امن کا ایک موقع اس وقت ملا جب امریکہ نے ستمبر 1993 میں اسرائیل اور فلسطینی تنظیم (PLO) کے درمیان اوسلو امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ مل کر دو آزاد اقوام یعنی ایک آزاد فلسطینی قوم کے قیام پر اتفاق کیا گیا۔

ایما راشفورڈ نے بی بی سی کو بتایا، ’لیکن دونوں فریقوں نے اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے دیانت دارانہ کوششیں نہیں کیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دونوں فریق اس معاہدے کی ناکامی کے ذمہ دار تھے۔ اس ناکامی کے بعد امریکہ اس 75 سالہ پرانے مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

مستقبل میں سفارت کاری کی سمت کیا ہو

مشرق وسطیٰ کے حالات اب ابتر ہو چکے ہیں جہاں پرامن مستقبل کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔

جرمنی، فرانس، برطانیہ اور کئی دوسرے ممالک امن کی کوششوں کے لیے کوششیں کر رہے ہیں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر برائن کٹولس کا خیال ہے کہ اس میں امریکہ کا بڑا کردار ہو گا۔

برائن کٹولس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ پچھلے چند سالوں میں اسرائیل کی عسکری اور اقتصادی صلاحیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان عدم توازن بڑھ گیا ہے۔

ان کے مطابق خطے کی دیگر طاقتوں جیسے ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنے مفادات کے لیے آواز اٹھانا اور اثر و رسوخ بڑھانا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے خطے میں امریکہ کے سفارتی کردار کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اس دوران چین نے ثالثی کی اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان بات چیت شروع کی۔

برائن کٹولس کا کہنا ہے کہ چین نے خطے میں اپنی اقتصادی اور سفارتی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں جس کی وجہ سے بائیڈن حکومت مشرق وسطیٰ میں زیادہ متحرک ہو گئی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے دوران اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے درمیان تعلقات معمول پر آ گئے ہیں۔ اسی اصول کو آگے بڑھاتے ہوئے بائیڈن حکومت بھی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ایران اور اس کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے اقدامات کو روکا جا سکے اور انھیں غزہ میں اسرائیل کے ساتھ نئے تنازعے میں کودنے سے روکا جا سکے۔

برائن کٹولس کا خیال ہے کہ امریکہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرے گا۔

برائن کٹولس نے کہا ’پچھلے کسی بھی معاہدے میں فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ تازہ ترین تنازعے میں دونوں طرف سے بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

’لیکن اس بحران میں امید کی ایک چھوٹی سی کرن ہو سکتی ہے کہ مسئلہ فلسطین پر دوبارہ تعمیری انداز میں بات ہو سکے اور عالمی رہنماؤں کو ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کی یاد دہانی کرائی جا سکتی ہے جو فلسطین کا بنیادی مسئلہ حل کرے۔‘

اور یہاں اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل سوال جانب کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارت کاری کیا حاصل کر سکتی ہے؟

بی بی سی کے سوال کے جواب پر ماہرین کا کہنا تھا کہ پچھلی دہائیوں میں اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ معاہدے کیے گئے اور امید بھی تھی، لیکن ان پر عمل نہیں ہوسکا اور تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔

موجودہ تنازعے میں امریکہ کی سفارت کاری سوائے دونوں طرف کے جان و مال کے نقصان کو کم کرنے اور تنازعے کو بڑھنے سے روکنے کے کچھ نہیں کر سکتی لیکن ماہرین نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ’مستقبل میں ایک وقت آئے گا جب دور اندیشی والی پالیسیاں اپنائی جائیں گی اور ایک نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دیا جائے گا جس میں نہ صرف امریکہ بلکہ دوسرے ممالک کی بھی سنی جائے گی۔‘

تاہم ان کے مطابق ان سب کو مشرق وسطیٰ میں جاری اس 75 سالہ سیاسی تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں