کیا یمن کے حوثی مشرق وسطی کیلئے ایک نیا خطرہ ہو سکتے ہیں؟

لندن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ماہرین کا ماننا ہے کہ حوثیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہیں، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ان کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے فکرمندی کا اظہار بھی کیا ہے۔

ماہرین حوثیوں کے حالیہ حملوں کو اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں گردانتے، لیکن وہ اس باغی گروپ کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

حال ہی میں یمن کے حوثی باغیوں نے اسرائیل کے جنوبی شہر ایلات کو کم از کم تین بار فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ لیکن اسرائیل نے اپنے دفاعی نظام کے ذریعے ان ڈرون اور میزائل حملوں کو ناکام بنا دیا۔

حوثی باغیوں کی جانب سے یہ حملے اسرائیل اور عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان جاری ایک تنازعے کے دوران کیے گئے، جس کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا۔

اس تمام تناظر میں حوثی باغیوں کے حالیہ حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکری لحاظ سے ان میں سے کسی بھی حملے کو کامیاب تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ان حملوں کی کامیابی حوثی باغیوں کے لیے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔

لندن میں مقیم یمن اور مشرق وسطی کے ماہر میتھیو ہیجز اس حوالے سے کہتے ہیں، “حوثی باغیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے محض علامتی خطرے کے مظہر ہیں۔”

ان کے خیال میں حوثیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے زیادہ خطرے کا باعث بھی نہیں ہیں، اور ایسے میں اسرائیل کے جوابی کارروائی کے امکانات کم ہیں۔

جہاں ایک طرف ماہرین کا یہ تبصرہ ہے وہیں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس ہفتے اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے آغاز سے پہلے یہ بیان دیا تھا کہ وہ حوثی باغیوں اور ایران نواز شیعہ تنظیم حزب اللہ کے اسرائیل پر حملوں کے بعد اسرائیل اور حماس کے تنازعے کو مزید بڑھنے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔

اور اس وقت یمن ویسے بھی ایک نئے محاذ کے لیے تیار نہیں۔ سن 2014 میں حوثیوں کے اس وقت کی یمنی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے یمن کو نو سال سے مسلسل خانہ جنگی کا سامنا ہے، جس نے وہاں کے سیاسی منظر نامے کو منتشر کر دیا ہے اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں سالوں پر محیط یہ تنازعہ، جسے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک پراکسی جنگ گردانا جاتا ہے، دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا باعث بھی بنا ہے۔

پین اسلامک بیانیہ

میتھیو ہیجز کی حوثیوں کے حوالے سے یہ رائے بھی ہے کہ جہاں ان کا ایک مقصد “یمنی عوام کو فلسطین کی آزادی کے لیے ملکی سطح پر متحد کرنا ہے” وہیں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ حوثیوں کے سبب خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام بڑھے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حوثی خود کو متحدہ عرب عمارات، سعودی عرب اور بحرین جیسی ان عرب حکومتوں سے الگ اور مختلف دکھانا چاہتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں یا ایسی کوشش کی ہے۔

میتھیو ہیجز کہتے ہیں کہ اسرائیل پر حملے کر کے “حوثی خطے میں دیگر مسلم کمیونٹیز پر یہ دباؤ بھی ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک پین اسلامک بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں، جس کے تحت حوثی اسرائیل کے مسلمانوں پر حملوں کا جواب دے رہے ہیں اور اس مطالبے کی قیادت بھی کر رہے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو اسرائیل پر حملہ کرنے کی ضرورت ہے”۔

حوثیوں کی عسکری صلاحیت

لیکن حوثیوں کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے میتھیو ہیجز کا دعویٰ ہے کہ ایران کے 2015 ء سے اس گروپ کے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز میں بھاری سرمایہ کاری کے باوجود ان کے پاس ایران کے دیگر پراکسیوں کے جیسی ہتھیاروں کی سپلائی چین اب بھی نہیں ہے اور اس طرح کے آپریشنز کرنے کی ان کی طویل مدتی صلاحیت کافی محدود ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حوثیوں نے انمینڈ آبدوز میزائلوں کا استعمال شروع کر دیا ہے، یعنی وہ آبدوز میزائل جن کو چلانے کے لیے انسانی عملے کی ضرورت نہیں اور ”اس سے اسرائیل اور مغربی دنیا کو ممکنہ خطرات کا سامنا ہونے کے تاثر کو بڑھاوا مل سکتا ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں