جہاد سے امجد صابری قتل کیس تک۔۔۔ قتل کی 34 وارداتوں میں ملوث حافظ قاسم رشید کون ہے؟

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’ہتھیار، ٹوٹے ہوئے شیشے کا وہ تیز دھار کنارا تھا جو اُس نے اپنے ہتھکڑی لگے ہوئے ہاتھوں سے اپنے ہی گلے پر رکھا ہوا تھا اور مجھے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر اُسے رہا نہ کیا گیا تو وہ اپنا گلا کاٹ لے گا۔‘

سندھ پولیس کے سابق سپرنٹینڈینٹ فیاض خان نے شدت پسند حافظ قاسم رشید کی گرفتاری کا کئی سال پرانا واقعہ یاد کرتے ہوئے کہا۔

یہ اُسی حافظ قاسم رشید کا تذکرہ ہے جسے کراچی پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی نے 24 اکتوبر 2023 کو ایک بار پھر گرفتار کیا ہے۔

کئی بار گرفتار اور ہر بار رہا ہو جانے والے حافظ قاسم رشید کو پولیس نے معروف قوال امجد صابری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

امجد صابری کا قتل

40 سالہ امجد صابری کا تعلق پاکستان میں قوالوں کے بین الاقوامی شہرت یافتہ صابری گھرانے سے تھا اور وہ خود بھی عالمی سطح پر معروف و مشہور قوّال تھے۔

امجد صابری بدھ 22 جون 2016 کو اُس وقت قتل کر دیے گئے جب وہ سما ٹی وی کی رمضان نشریات کی ریکارڈنگ کے لیے کراچی کے وسطی علاقے لیاقت آباد (لالو کھیت) میں واقع گھر سے گاڑی میں جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے گاڑی کا پیچھا کرنے کے بعد اُسے روکا اور بڑے اطمینان سے گاڑی کے دونوں جانب سے گولیاں برسائیں۔

امجد صابری کو دو گولیاں سر پر اور ایک ران کے قریب لگی مگر اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے اُن کے ساتھی محفوظ رہے۔ واردات کے بعد حملہ آور موٹر سائیکل پر حسن سکوائر کی جانب فرار ہو گئے۔

حملے کے فوراً بعد تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی حکیم اللّہ محسود گروپ) کے ترجمان قاری سیف اللّہ محسود نے حملے کی ذمہ داری یہ کہتے ہوئے قبول کی کہ امجد صابری مذہبی توہین کے مرتکب ہو رہے تھے۔

اس قتل کی واردات کے ساڑھے چار ماہ بعد، 7 نومبر 2016 کو سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اعلان کیا کہ پولیس نے امجد صابری کے دو مبینہ قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

قومی و عالمی ذرائع ابلاغ اور پولیس و سرکاری حکام کے مطابق سی ٹی ڈی کے افسر ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے تفتیش کے بعد ملزمان عاصم عرف کیپری اور اسحٰاق عرف بوبی کو گرفتار کر کے انھیں امجد صابری کے قتل کا ملزم قرار دیا جنھیں بعد ازاں عدالت میں چالان کیا گیا۔

دونوں ملزمان کو نچلی عدالت سے ملنے والی سزا ہائیکورٹ میں چیلنج کی گئی ہے اور اب امجد صابری قتل کیس میں حافظ قاسم رشید کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

حافظ قاسم رشید کون ہے؟

کراچی پولیس کی اعلیٰ قیادت سے تعلق رکھنے والے ذرائع سے بی بی سی کو حاصل ہونے والی ایک ’انٹیروگیشن رپورٹ‘ اور پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ ترین افسران کی مدد سے کی جانے والی بی بی سی کی تحقیق کے مطابق حافظ قاسم رشید کراچی کے علاقے تین تلوار (کلفٹن) میں کراچی میٹرو پولیٹن کے سرونٹ کوارٹرز میں 17 اپریل 1979 کو ام تمیم اور عبدالرشید کے گھر پیدا ہوئے۔

ملزم حافظ رشید کے خاندان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کے ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں سیّال میں آباد تنولی حسنال برادری سے ہے۔ انٹیروگیشن رپورٹ کے مطابق ملزم حافظ قاسم رشید کے تین بھائی ہیں۔ حافظ قاسم رشید کی شادی بھی ہوئی مگر کوئی اولاد نہیں۔

رپورٹ کے مطابق اندرون و بیرون ملک (افغانستان اور کشمیر) میں قائم دہشت گردی کے کئی تربیتی مراکز سے تربیت یافتہ ملزم حافظ قاسم رشید کی مادری زبان ہندکو ہے مگر وہ اردو بھی روانی سے بول سکتا ہے۔

’لشکرِ جھنگوی‘ سے وابستگی رکھنے والے ملزم حافظ قاسم رشید کی آمدنی یا ذریعۂ معاش (کئی برس قبل) دہشت گردی کے واقعات میں بطور ’ٹارگٹ کلر‘ ملنے والی ماہانہ رقم 40 ہزار روپے بتائی گئی ہے۔

کئی بار گرفتاری کے بعد دوران حراست کی جانے والی تفتیش میں ملزم نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ کے ایم سی سرونٹ کوارٹرز میں اُس کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد اُس کا خاندان کراچی (جنوبی) کے علاقے ہجرت کالونی منتقل ہوا جہاں قریباً دس برس کے بعد یہ کنبہ جونیجو ٹاؤن میں مستقلاً رہائش پذیر ہوگیا۔

اُس نے کچھ عرصے تک تو تعلیم گورنمنٹ بوائز سکول عبداللّہ شاہ غازی (واقع) کلفٹن کراچی سے حاصل کی اور پھر 1991 میں وہ دنیاوی تعلیم ترک کر کے دینی تعلیم کے لیے لاہور کے ’مدرسۂ منظور السلام‘ پہنچا جہاں اس نے 1992 سے محض تین برس کے دوران 1995 میں قرآن حفظ کر لیا۔

1997 میں حافظ قاسم رشید کی ملاقات کراچی کے علاقے سلطان آباد کی ایک مسجد میں قاری سے ہوئی جنھوں نے اُسے جہاد کی دعوت دی۔

قاری نے حافظ قاسم رشید کو سلطان آباد ہی کی ایک بڑی مسجد میں امام صاحب سے ملوایا اور امام نے بھی دعوت جہاد دی۔ وہ ایک ہفتے تک مستقل امام صاحب سے ملتا رہا اور بالآخر امام نے اُسے چھ سات ساتھیوں کے ہمراہ ایک روز کراچی کے کینٹ سٹیشن سے ریل میں لاہور روانہ کر دیا جہاں وہ ضلع مرید کے میں واقع لشکرِ طیبہ کے دفتر پہنچے۔

رپورٹ کے مطاق یہاں تین روز تک تبلیغ کی دعوت دی جاتی رہی اور پھر حافظ قاسم کو ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد پہنچا دیا گیا۔ مظفر آباد میں لشکرِ طیبہ کے امیر مسعود صاحب سے ملاقات کروائی گئی اور ایک روز آرام کے بعد انھیں مضافاتی گاؤں میں واقع تربیتی مرکز پہنچایا گیا۔

یہاں 21 دن کے دوران انھیں 30 بور (ٹی ٹی) پستول، 9mm پستول، ایس ایم جی، میگاروف، اور جی تھری رائفل جیسے ہتھیار چلانے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی رہی جس کے بعد وہ واپس کراچی پہنچا۔

اب تربیت یافتہ حافظ قاسم تین چار ماہ بعد ایک جمعرات کو لائنز ایریا میں واقع مکّی مسجد میں بیان سننے جا پہنچا اور یہ بیان سننا آئندہ کئی ہفتوں تک اس کا معمول بن گیا۔ بالآخر جذبہ جہاد سے سرشار حافظ قاسم نے مکّی مسجد کے امیر سے فرمائش کی کہ مجھے جہاد پر جانا ہے براہِ مہربانی آپ کچھ انتظام کردیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق ایک روز امیر نے اُسے پھر تین چار ساتھیوں کے ساتھ کینٹ سٹیشن سے روانہ کر دیا مگر اس بار منزل اسلام آباد تھی۔

یہ سب لوگ اسلام آباد میں ’حرکت الجہاد اسلامی‘ کے دفتر پہنچے جہاں اُن کی ملاقات دفتر کے امیر ابراہیم سے ہوئی۔ ایک بار پھر انھیں ایک روز آرام کروا کر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے کوٹلی بھجوا دیا گیا۔ کوٹلی میں ایک روز قیام کے بعد انھیں پھر ایک نواحی علاقے میں قائم تربیتی مرکز پہنچایا گیا جسے تفتیشی رپورٹ میں ’معاسکر‘ لکھا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس مرکز میں تربیت کے بعد حافظ قاسم اور دیگر کو کوٹلی کے علاقے سینسا میں قائم پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) کے ٹریننگ سینٹر بھیج دیا گیا۔ وہاں بھی تربیت مکمل کر کے انھیں واپس معاسکر پہنچایا گیا اور ایک ماہ وہاں گزارنے کے بعد ان سب کو کشمیر پہنچایا گیا جہاں وہ چھ مہینے تک انڈین فوج کے خلاف جہاد کرتا رہا۔

کشمیر سے حافظ اپنے گاؤں قلندر آباد ڈسٹرکٹ مانسہرہ پہنچا اور ایک ماہ قیام کے بعد کراچی آ کر پھر پڑھائی کرنے لگا اور 2001 میں میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہو گیا۔

میٹرک کے بعد حافظ قاسم ’جہاد‘ کی غرض سے پھر روانہ ہوا اور اس دفعہ اس کا رخ افغانستان کے علاقے قندھار کی جانب تھا۔

قندھار پہنچ کر پہلے تو وہیں طالبان کے ساتھ جہادی سرگرمیوں میں مصروف رہا مگر پھر کابل پہنچ کر ایک اور جہادی گروہ جیشِ محمد سے جا ملا اور چھ مہینے تک امریکی فوج کے خلاف جہادی کارروائیوں میں شریک رہا۔

جب امریکی فوج کی جوابی کارروائی میں تیزی آئی تو حافظ قاسم واپس اپنے گاؤں قلندر آباد مانسہرہ چلا گیا اور دو تین ہفتے گزار کر پھر کراچی پہنچا۔ کراچی آ کر حافظ قاسم رشید نے نیو کراچی ناگن چورنگی پر واقع سپاہ صحابہ کے دفتر آنا جانا شروع کر دیا۔

پاکستان کا بدلا ہوا سیاسی ماحول

اس دوران پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ہی بدل گیا۔ نائن الیون کے بعد جب امریکی فوج نے نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان پر لشکر کشی کی تو وہاں موجود شدت پسندوں یعنی طالبان، القاعدہ، اور دیگر جنگجوؤں نے پاکستانی سرحدی علاقوں سے شہروں تک اپنی نئی پناہ گاہیں بنالیں۔

تب تک پاکستان میں فعال مخلتف مسالک اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے شدّت پسند گروہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد کا ماحول گرم کر چکے تھے۔

یہ شدّت پسند گروہ افغانستان سے پناہ کی تلاش میں آنے والے جنگجو حلقوں کے قریب ترین نظریاتی حلیف ثابت ہوئے جنھوں نے افغانستان سے آنے والے جنگجوؤں کو محفوظ ٹھکانے اور تحفظ فراہم کرنے میں زبردست کردار ادا کیا۔

نتیجتاً اُن محفوظ پناہ گاہوں اور افغانستان سے وہاں جا چھپنے والے شدّت پسندوں کی سرکوبی کے لیے عالمی اداروں اور امریکی و نیٹو افواج کا زبردست دباؤ پاکستانی فوج پر آیا جو پہلے ہی فرقہ وارانہ تشدد سے نبرد آزما تھی۔

بالآخر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ملک بھر میں اُن شدّت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔

2002 کے اس کریک ڈاؤن کے دوران حافظ جیسے بہت سے جنگجو قانون نافذ کرنے والے پاکستانی اداروں کی نظروں میں آئے اور اسی برس کراچی پولیس کے کرائم انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ نے حافظ کو گرفتار کرلیا۔

حافظ قاسم رشید کی پہلی گرفتاری

کراچی پولیس میں ایس پی کے عہدے پر تعینات رہنے والے افسر فیاض خان سنہ 2002 میں حافظ قاسم رشید کو گرفتار کرنے والے پولیس دستے کے افسر تھے۔

فیاض خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دوران حراست جب ہم نے اُس سے تفصیلی تفتیش کرنی چاہی اور اُسے لاک اپ سے نکال کر تفتیشی کمرے میں لایا گیا تو ہتھکڑی لگے ہونے کے باوجود اُس نے اچانک میرے سپاہیوں پر حملہ کر دیا۔‘

’کمرے میں ایک میز ایسی تھی جس کے اوپر والا حصّہ شیشہ کا تھا۔ موقع پاتے ہی اُس نے میز کا شیشہ توڑ کر اُسے ہتھیار بنا لیا۔ ٹوٹے ہوئے شیشے کی خنجر جیسی تیز دھار نوک سے پہلے اس نے میرے ایک سپاہی کو زخمی کیا اور جب تک شور سن کر ہم بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے تو باقی سپاہی اُسے قابو کرنا چاہ رہے تھے۔‘

’جب میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ خود اپنی ہی جان لینے کی دھمکی دے رہا تھا۔ ہتھیار ٹوٹے ہوئے شیشے کا وہ ہی تیز دھار کنارا تھا جو اُس نے اپنے ہتھکڑی لگے ہوئے ہاتھوں سے اپنے ہی گلے پر رکھا ہوا تھا اور مجھے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر اُسے رہا نہیں کیا گیا تو وہ اپنا گلا کاٹ لے گا۔ بڑی مشکل سے ہم نے اُس پر دوبارہ قابو پایا اور پھر لاک اپ کر دیا۔‘

فیاض خان نے بتایا کہ ’اس وقت تک چونکہ پاکستان کے اندر یہ کسی قسم کی پرتشدد کارروائی میں ملوث نہیں رہا تھا مگر شدت پسند ساتھیوں سے مل کر کام کرتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے ریکی (نگرانی) شروع کر چکا تھا۔ یہاں تک کے اس وقت کے آئی جی سندھ سید کمال شاہ کی نگرانی کے لیے اُن کے ساتھ بھی ڈیفینس کی ایک مسجد میں نماز ادا کر چکا تھا۔‘

بی بی سی کو دستیاب تفتیشی رپورٹ کے مطابق پہلی بار گرفتار ہونے پر بارود اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں جیل جانے والے حافظ قاسم کو محض چھ ماہ بعد ہی عدم ثبوت کی بنا پر صمانت پر رہائی تو مل گئی مگر 2003 میں ایک تاریخ پر پیشی کے لیے عدالت سے واپسی پر سی آئی ڈی پولیس نے اسے دوبارہ گرفتار کر لیا۔

حافظ قاسم نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ تین چار ماہ بعد پھر جیل میں گزار کر جب وہ باہر نکلا تو ایک بار پھر نیو کراچی ناگن چورنگی پر واقع سپاہ صحابہ کے دفتر آنا جانا شروع کر دیا جہاں اُس کی ملاقات عبداللّہ الیاس عرف تیمور سے ہوئی۔

اسی دوران سپاہِ صحابہ کراچی ڈویژن کے ذمہ دار قاری شفیق الرحمٰن ٹارگٹ کلنگ کی ایک واردات کا نشانہ بن گئے۔ قاری شفیق کی تدفین کے موقع پر تیمور نے اُس سے کہا کہ ہمارے لوگ مررہے ہیں بدلہ لینے کے لیے ہمیں بھی کام کرنا چاہیے۔

تیمور کی یہی گفتگو فرقہ وارانہ تشدد کی جانب اس کے رجحان کی ابتدا ثابت ہوئی اور اب وہ ایک ایسے گروہ سے جُڑ گیا جو فرقہ وارانہ تشدد پر آمادہ تھے۔

فیاض خان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پولیس پر حملہ کرنا چاہا۔

’اس مقصد کے لیے سول لائنز میں واقع سی آئی ڈی کے مرکزی دفتر کو راکٹ سے نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ راکٹ سی آئی ڈی کے دفتر کے عقب سے گزرنے والے ریلوے لائن پر نصب کیا گیا مگر شاید ہدف کے غلط تعین کی وجہ سے یہ راکٹ سی آئی ڈی کے دفتر کو نشانہ بنانے کی بجائے شہر کے وسط میں گُرو مندر کے علاقے میں جا گرا لیکن ذرائع سے ہمیں پتا چل گیا کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے۔ حافظ قاسم اتنا خطرناک ہے کہ اسی کے گروہ نے جنرل مشرف پر بھی راکٹ حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اس غرض سے کراچی ائیرپورٹ پر اسی قسم کے راکٹ نصب کیے گئے تھے۔‘

مسلسل تعاقب میں لگے پولیس کے مختلف محکموں میں اس کی گرفتاری کے سرگرم بہت سے افسران اس کی تلاش میں تھے کہ سنہ 2005 میں ایک بار پھر کراچی پولیس کے شعبۂ انسداد تشدد نے اُسے حراست میں لے لیا۔

سی آئی ڈی کے دفتر پر راکٹ یا میزائل حملے کے مقدمے میں اس دفعہ حافظ قاسم کو چار برس کراچی کی سینٹرل جیل میں گزارنے پڑے۔

جیل میں اس کی ملاقات فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے وسیم عرف بارودی سے ہوئی۔

جیل اور جیل کے باہر حافظ کے رابطے اُن شدّت پسندوں سے بڑھتے چلے گئے جو جہادی سوچ کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تشدد پر بھی مائل تھے۔ آہستہ آہستہ وہ لشکر جھنگوی میں اعلیٰ سطح کے شدّت پسندوں عطا الرحمٰن عرف نعیم بخاری، صالح پٹھان اور دیگر سے متعارف ہوتا چلا گیا اور یہ پورا گروہ ایک ایسا نیٹ ورک بن گیا جو بلا اشتعال بھی محض مسلک کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تشدد میں ملوّث رہا۔

وارداتوں کا اعتراف

کراچی پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے بہت سے حُکام سے ہونے والی پس پردہ گفتگو، بی بی سی کو حاصل ہونے والی تفتیشی رپورٹس اور مختلف اداروں کی جانب سے جمع شدہ سرکاری معلومات اور اب حافظ قاسم کو گرفتار کرنے والے سی ٹی ڈی حکام کے دعووں کے مطابق حافظ قتل کی کم از کم 34 وارداتوں میں ملوث رہا۔

تفتیشی رپورٹ کے مطابق حافظ قاسم نے خود تفتیش کاروں کو بتایا کہ لشکر جھنگوی کے ساتھی صالح پٹھان کی ایما پر اُس (حافظ قاسم) نے سی آئی ڈی کے ڈی ایس پی محمد اَسرار اعوان کی ریکی کی اور یہ معلومات صالح پٹھان کو فراہم کیں جو عطا اللّہ عرف نعیم بخاری اور حافظ کے درمیان رابطہ کار تھا۔

ان ہی معلومات پر 21 جولائی 2012 میں صالح پٹھان کے شوٹرز نے تھانہ جمشید کوارٹرز کی حدود میں ڈی ایس پی اعوان پر حملہ کیا۔ ڈی ایس پی اعوان اور اُن کا گن مین شدید زخمی ہوئے مگر گن مین کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور فرار ہوگئے۔ یہ حملہ خود دیکھنے یا حملہ آوروں کی مدد اور تحفظ کے لیے حافظ قاسم سڑک کے دوسری جانب خود موجود رہا۔

اپنے بیان کے مطابق 19 جنوری 2012 کو حافظ قاسم نے خود ریکی کر کے سب انسپیکٹر اصغر تارڑ کو شیعہ ہونے کی بنیاد پر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

حافظ قاسم نے پولیس اور دیگر اداروں کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ 29 ستمبر 2012 کو قتل ہونے والے دو پولیس افسران، کراچی سینٹرل جیل کے افسران اے ایس پیر مسعود احمد اور ڈی ایس پی عبدالرزاق عباسی کو بھی اُس ہی نے نیپا چورنگی کے قریب گولیاں مار کر قتل کیا۔

ایم پی اے رضا حیدر کا قتل

حافظ قاسم کے اعتراف کے مطابق 2 اگست 2012 کو لشکر جھنگوی سے وابستہ اخلاق پرویز نے وسیم بارودی کو اطلاع دی کہ اُس کی نانی کا انتقال ہو گیا ہے جن کی نمازِ جنازہ جامع مسجد انکوائری آفس ناظم آباد میں ادا کی جائے گی اور وہاں ایم کیو ایم کے رکنِ سندھ اسمبلی حیدر بھی تعزیت و نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے آئیں گے کیونکہ وہ میرے خالو کے دوست ہیں۔

اس اطلاع پر حافظ قاسم اپنے ساتھیوں وسیم بارودی اور عبداللّہ عرف تیمور کے ہمراہ وہاں پہنچا۔ رضا حیدر مسجد کے باہر جنازے کے انتظار میں (وضو خانے میں) کھڑے تھے۔ عبداللّہ تیمور نے پہلے پستول سے رضا حیدر کے گن مین محمد خالد خان کو گولی ماری پھر سرکاری ایس ایم جی رائفل چھین لی۔ جب رضا حیدر بچنے کے لیے مسجد کی طرف بھاگے تو حافظ قاسم نے تین چار گولیاں چلائیں مگر کوئی گولی رضا حیدر کو نہ لگ سکی۔ جس پر عبداللّہ تیمور نے تعاقب کر کے وضو خانے تک پہنچ کر چھینی ہوئی ایس ایم جی سے انھیں آٹھ گولیاں مار کر قتل کر دیا اور فرار ہوگئے۔

حافظ قاسم کا کہنا ہے کہ رضا حیدر کو شیعہ ہونے کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔

اگرچہ بی بی سی کو حاصل ہونے والی تفتیشی دستاویزات میں حافظ قاسم نے تفتیش کاروں کو تمام 34 وارداتوں کی بھیانک تفصیلات بتائی ہیں مگر اُن سب کا تذکرہ یہاں جگہ کی قلت اور طوالت کے پیشِ نظر ممکن نہیں۔ یہ تمام وارداتیں 2010 سے 2012 کے درمیان کی گئیں۔

یہاں تک کی کہانی سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

پہلا تو یہ کہ محض فرقے یا مسلک کے مختلف ہونے پر درجنوں قیمتی انسانی جانیں لینے والے حافظ قاسم جیسے ٹارگٹ کلرز گرفتاری کے باوجود ہر بار اتنی آسانی سے رہا کیسے ہو جاتے ہیں اور یہ بھی کہ کیا حافظ قاسم ہی امجد صابری کے قتل میں بھی ملوث تھا؟

پاکستان کے اخبار جنگ کی بدھ 25 اکتوبر کی اشاعت میں پولیس اعلامیے کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’فرقہ وارانہ شدّت پسند گُروہ لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے قاسم رشید عرف بلال عرف گنجا ولد عبدالرشید کو کراچی کی علاقے پٹیل پاڑہ سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزم کچھ ہی عرصے قبل جیل سے رہا ہوا اور دوران حراست جیل سے بھی اپنا نیٹ ورک چلاتا رہا اور اپنے ساتھیوں عاصم عرف کیپری اور اسحٰق عرف بوبی کے ذریعے بین الاقوامی شہرت یافتہ قوّال امجد صابری کے قتل سمیت کئی وارداتوں میں ملوث رہا۔‘

حیرت انگیز طور پر روزنامہ جنگ سمیت پاکستانی اخبارات و دیگر ذرائع ابلاغ میں حافظ کی گرفتاری کی تفصیلات کے ساتھ سی ٹی ڈی کے بعض دیگر پولیس افسران کا یہ موقف بھی شائع و نشر ہوا کہ ملزم کو سی ٹی ڈی افسران جن بعض مقدمات میں ملوث قرار دے رہے ہیں ’اُن میں سے کئی واقعات میں اس کو ملوث کیا جانا غلطی ہے۔‘

انگریزی اخبار ڈان کی بدھ 25 اکتوبر کی اشاعت کے مطابق ’سی ٹی ڈی ہی کے سینیئر افسر ایس ایس پی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ حافظ انتہائی خطرناک (ہائی پروفائل) دہشت گرد تو ضرور ہے اور کراچی میں شدّت پسند گروہ لشکر جھنگوی کا نائب امیر بھی رہا ہے مگر یہ امجد صابری یا فوجی جوانوں کے قتل میں ملوّث نہیں رہا اور اسے اُن مقدمات میں ملوّث کر کے سی ٹی ڈی غلطی کر رہی ہے۔‘

تو پھر پولیس حافظ کو امجد صابری کیس میں کیوں ملوث کر رہی ہے؟

اس سوال کا جواب پسِ پردہ گفتگو میں سندھ اور کراچی پولیس پولیس کی اعلیٰ ترین قیادت میں شامل رہنے والے اور اب بھی ایک اہم ذمہ داری پر تعینات افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دیا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’اس ملک میں صرف پولیس ہی سب کچھ نہیں۔ امجد صابری قتل کیس میں وہی لوگ (عاصم کیپری اور اسحٰق بوبی) ہی ہیں جو پہلے پکڑے گئے۔ وہ بہت پروفیشنل انٹیروگیشن اور انویسٹیگیشن کے بعد پکڑے گئے تھے اور جس ٹیم نے ان دونوں کو پکڑا وہ سب اپنے کام میں بہت ماہر اور بہت باخبر پولیس افسر ہیں۔ ہم جانتے کہ پولیس افسر عام جرائم پیشہ افراد سے ساز باز بھی کرتے ہیں، کرپشن بھی ہوتی ہے مگر یہ ایسا کام ہے کہ کوئی پولیس افسر جھوٹ بول کر اپنی جان اور ملازمت دونوں خطرے میں نہیں ڈالے گا۔‘

’اگر اس نے ایک دہشتگرد کی کارروائی دوسرے پر ڈالی تو دہشتگرد مار دیں گے اور اگر جھوٹ پکڑا گیا تو ملازمت ختم اوراگر دہشت گردی کے معاملات سے کھلواڑ کیا تو ریاست بھی کارروائی کرے گی۔ اس لیے میں بڑی ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں پولیس نہیں کرتی یہ کہ اِس دہشتگرد کو اُس کیس میں بھی ڈال دو جو اس نے نہیں کیا ہو۔۔۔ یہ کوئی اور کرتا ہے۔۔۔ پولیس میں اتنا بڑا رسک نہ تو کوئی افسر لیتا ہے نہ لے سکتا ہے۔‘

جب پولیس کو سب پتا ہے تو پھر بعض پولیس افسر حافظ کو صابری قتل کیس میں ملوث کرنے کو غلطی کیوں قرار دے رہے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں انگریزی اخبار ڈان کے سٹی ایڈیٹر اظفر الاشفاق نے مجھے کہا کہ ’خود سی ٹی ڈی کے افسر راجہ عمر خطاب کہہ رہے ہیں کہ اُن کی تفتیش کے مطابق امجد صابری کو تو ملزمان عاصم عرف کیپری اور اسحٰق عرف بوبی نے قتل کیا اور اُن کو سزا بھی ہوئی اور سزا کے خلاف اپیل بھی چل رہی ہے۔ اگر حافظ پر آپ امجد صابری کیس ڈال دیں گے تو دونوں کیس کمزور ہو جائیں گے اور دونوں کو شک کا فائدہ ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ راجہ عمر خطاب اس کو غلط قرار دے رہے ہیں۔‘

ایس پی فیاض خان نے بھی کہا کہ امجد صابری کا کیس بہت عمدگی سے ہینڈل کیا گیا تھا اور مجھے بھی نہیں لگتا کہ حافظ قاسم امجد صابری کے قتل میں ملوّث ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر وہ ملوث ہوتا تو جہاں دوران تفتیش پولیس افسران کو اور کیسز بتائے وہاں یہ بھی بتا دیتا۔ ہمارے مخبر بھی ہوتے ہیں اُن میں سے بھی کبھی کسی نے اس کے ملوث ہونے کی نشاندہی نہیں کی۔‘

لیکن جب پولیس کی ہر سطح کے افسران یہ بھی جانتے ہیں کہ حافظ قاسم کتنا خطرناک ہے اور کن کن وارداتوں میں ملوّث رہا تو ہر بار گرفتار کر لینے کے باوجود پولیس اُسے عدالت سے سزا دلوانے میں ناکام کیوں رہی؟

صحافی اظفر الاشفاق کا کہنا ہے کہ ’اگر استغاثہ ہی کمزور ہو تو عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے؟ دوسری وجہ وٹنس پروٹیکشن (گواہوں کے تحفظ کا) پروگرام ہے۔ اس پرعمل نہیں ہوتا۔ گواہان ملزمان کے سامنے عدالت میں پیش ہوتے ہیں ملزمان انھیں باآسانی ڈرا دھمکا لیتے ہیں۔ گواہان کا تحفظ تو ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست اس میں ناکام ہو رہی ہے۔‘

دہشتگردی کا نشانہ بننے والے افراد کے اہلِ خانہ اور خاندان بھی نظام عدل کی کمزوری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مقتول ایم پی اے رضا حیدر کے صاحبزادے خرم علی بھی اپنے والد کے قتل 13 سال بعد بھی مجرموں کو سزا نہ دیے جانے پر نظامِ عدل سے مایوس ہیں۔

ایس پی فیاض خان بھی عدالتی نظام میں کمزوریوں کو حافظ قاسم رشید جیسے ملزمان کی طاقت قرار دینے کے خیال سے متفق ہیں۔

فیاض خان کا کہنا ہے کہ ’جن تنظیموں سے حافظ جیسے ملزمان کا تعلق ہوتا ہے وہ بہت طاقتور ہوتی ہیں وہ اتنے بڑے نیٹ ورک ہیں کہ اگر اُن کا کوئی ساتھی گرفتار ہو جائے تو باہر یہ گواہوں کو پولیس افسروں کو قتل کر دیتے ہیں۔ گزشتہ بار گرفتار ہونے پر حافظ کا کیس جیل میں چلتا تھا۔ ہمارے افسر جیل میں سماعت پر جاتے تھے تو یہ اُن کو دھمکی دیتے تھے۔ جج کے سامنے دھمکی دیتے تھے حتیٰ کے جج تک کو دھمکی دیتے تھے۔‘

ایس پی فیاض نے مزید کہا کہ ’جب ملزم جج اور تفتیشی پولیس افسروں، جیل حکام کو دھمکی دیتے تھے تو عام گواہ تو خوف میں عدالت ہی نہیں آتے تھے۔ کچھ عرصے تک تو متاثرین کی فیملی آتی ہے مگر کچھ مقدمات میں وہ بھی گواہی نہیں دے پاتے۔‘

’پھر جو عدالتوں میں اُن کے ساتھ ہوتا ہے 20-20 پیشیاں 25-25 بار عدالت کی سماعت، تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔‘

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ استغاثہ کی جانب سے صرف گواہان کی بنیاد پر یا پولیس کی تفتیش میں اعترافی بیان پر ہی کیوں عدالتی کارروائی ہوتی ہے اور سائنسی شواہد (ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ یا فنگر پرنٹ جیسے ثبوت) کیوں عدالت میں پیش نہیں کیے جاتے؟

اس پر صحافی اظفر الاشفاق کا کہنا ہے کہ ’پراسیکیوٹر (افسر استغاثہ) ملزم کا بیان دیکھتا ہے اور گواہ کا بیان مل جاتا ہے اور بس۔۔۔ اتنی آسانی سے مقدمہ عدالت میں چلا جاتا ہے جہاں ملزم یہ کہہ دیتا ہے کہ اُس سے زبردستی اعترافی بیان لیا گیا اور گواہ اپنی گواہی سے مکر جاتے ہیں۔ اب ڈی این اے ٹیسٹ بلڈ سیمپل اور فنگر پرنٹ جیسے کام میں تو محنت لگتی ہے پیسے بھی خرچ ہوتے ہیں تو اتنا کام کون کرے؟ وہ سب سہولتیں موجود ہیں کافی مقدمات میں پیش بھی کی جاتی ہیں سزا بھی ہوتی ہے مگر ہر مقدمے میں اتنی محنت نہیں کی جاتی اور بہت کم گواہ ایسے ہوتے ہیں جو واقعی موقعِ واردات پر موجود ہوں۔ تو کہیں نہ کہیں جھول آ جاتا ہے استغاثہ کی کہانی میں اور عدالت سے شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔‘

ایس پی فیاض نے کہا کہ سائنسی بنیادوں پر پولیس کی تفتیش میں بڑا کام ہوا ہے اور گزشتہ 8 یا 10 سال میں پولیس کی تفتیش کا معیار بہت بہتر ہوا ہے لیکن ان چیزوں کے ساتھ بھی گواہان کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔

’فرض کریں کہ واقعاتی شہادت یا سائنسی ثبوت و شواہد ڈی این اے یا بلڈ سیمپل موجود بھی ہوں اور پھر ایک بھی گواہ اپنے بیان سے مکر جائے تو پھر عدالت میں تو سارا مقدمہ خراب ہو جاتا ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں