مذہبی جماعتوں کے رہنما قطر میں حماس قیادت سے ملاقاتیں کیوں کر رہے ہیں؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں حماس، اسرائیل جنگ پر عوامی احتجاج میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور مذہبی جماعتوں کی کال پر مختلف شہروں میں بڑی احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اتوار کو اسلام آباد میں ہونے والی ایک احتجاجی ریلی سے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے ویڈیو خطاب بھی کیا۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے قطر میں اسماعیل ہنیہ اور خالد مشعل سے ملاقات بھی کی ہے۔

اسماعیل ہنیہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستانیوں کا فلسطینیوں اور قبلہ اول سے نظریاتی تعلق ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حماس نے ‘طوفان الاقصی’ آپریشن کے ذریعے ‘گریٹر اسرائیل’ کا خواب چکنا چور کردیا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

گزشتہ دنوں پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں بالخصوص جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیوں کا اہتمام کیا۔

پاکستان کی حکومت کی جانب سے تاحال اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازعے پر محتاط ردِعمل سامنے آیا ہے۔ تاہم مذہبی جماعتوں کی جانب سے عوامی سطح پر احتجاج میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق حکومت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی خود کو اس تنازع پر بیانات کی حد تک محدود رکھا اور عوامی احتجاج سے خود کو دور رکھا ہے۔

پاکستان کی حکومت نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بمباری کی مذمت کی تھی جب کہ پاکستان اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی قراردادیں پیش کرنے والے ممالک میں بھی شامل رہا ہے۔

پاکستان کی حکومت نے تنازع کے ‘دو ریاستی حل’ پر بھی زور دیا تھا۔

‘مذہبی جماعتیں ہی عوام کو سڑکوں پر لا رہی ہیں’

مبصرین حماس رہنما کے پاکستان میں عوامی ریلی سے خطاب اور مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق کی دوحہ میں اسماعیل ہنیہ سے ملاقات کو اہم قرار دیتے ہیں۔

عالمی امور کی ماہر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ حماس قیادت سے پاکستان کے مذہبی رہنماؤں کی ملاقاتیں اور احتجاجی ریلیوں سے خطاب ان کے لیے ایک لحاظ سے حیران کن ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا عام آدمی کی نبض پر ہاتھ ہوتا ہے اور غزہ کے معاملے پر مذہبی رہنماؤں نے سڑکوں کو گرما دیا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستانی عوام کی مقدس مقامات کی وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے اور مذہبی جماعتیں اسی حساسیت کو دیکھتے ہوئے عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ قومی جماعتیں عوامی مسائل اور جذبات کی عکاسی میں اکثر پیچھے رہتی ہیں اور اسی بنا پر مذہبی اور علاقائی جماعتیں پاکستان میں اپنی اہمیت بنائے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستان کا غزہ کی صورتِ حال پر محتاط ردَعمل اس وجہ سے بھی ہے کہ ہماری حکمراں اشرافیہ اس انتظار میں تھی کہ سعودی عرب، اسرائیل سے تعلقات استوار کرے تو اسی گھوڑے پر سوار ہو کر اسلام آباد بھی تل ابیب سے مراسم بنا لے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتی رہی ہے۔

‘مؤقف میں ہم آہنگی ہونی چاہیے’

حماس قائدین سے پاکستانی رہنماؤں کی ملاقات پر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ یہ عجیب صورتِ حال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن قطر میں ملاقاتیں کر رہے ہیں اور حماس رہنما پاکستان میں عوامی ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں جب کہ حکومت کی حکمتِ عملی اس سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی و مذہبی رہنماؤں، حکومت اور دفترِ خارجہ کے درمیان اس قسم کے معاملات میں ہم آہنگی ہونی چاہیے کہ کتنا آگے جانا ہے اور کہاں محتاط رہنا ہے۔

‘پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی حماس سے زیادہ قربتیں ہیں’

سابق سفارت کار عاقل ندیم کہتے ہیں کہ حماس چوں کہ نظریاتی طور پر ‘اخوان المسلمون’ کے قریب تصور کی جاتی ہے اس وجہ سے پاکستان کی مذہبی جماعتیں ان سے زیادہ ہمدردی ظاہر کر رہی ہیں۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ حماس رہنماؤں سے ملاقاتوں کے علاوہ اُن کے پاکستان میں احتجاجی ریلیوں سے خطاب کا بھی بندوبست کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی سیاسی جماعتیں اس بنا پر بھی ایسے معاملات پر محتاط رہتی ہیں کہ انہیں مستقبل میں حکومت میں آنا ہوتا ہے اور سخت بیانات اس وقت ان کی مشکل کا باعث بن سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ غزہ کے معاملے پر پاکستان کی حکومت کا ردِعمل بھی روایتی اور محتاط رہا جس کی وجہ معاشی مشکلات اور اسلام آباد کا سعودی عرب اور امارات کی پالیسی سے آگے نہ جانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور امارات کے حماس سے اچھے مراسم نہیں ہیں اس بنا پر پاکستان اپنے روایتی مؤقف کو اپناتے ہوئے حماس کی حمایت میں بہت آگے نہیں گیا ہے۔

عاقل ندیم کہتے ہیں کہ عرب ممالک پر معاشی انحصار کے علاوہ اسلام آباد کے محتاط رویے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فلسطینی قیادت اور عرب ممالک مسئلہ کشمیر پر زیادہ بات نہیں کرتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں