فلسطین معاملے پر مذاکرات کیلئے او آئی سی کا سربراہی اجلاس

ریاض (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی/ڈی پی اے) اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) مملکت سعودی عرب کی دعوت پر اگلے ہفتے ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس کا انعقاد کر رہی ہے۔ ریاض میں 12 نومبر کو ہونے والے اس اجلاس میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی بھی شرکت کریں گے۔

سعودی عرب کی دعوت پر اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا سربراہی اجلاس بارہ نومبر اتوار کے روز مملکت کے دارالحکومت ریاض میں ہو گا۔ تنظیم کی صدارت فی الوقت سعودی عرب کے پاس ہے اور اسی حیثیت سے اس نے یہ اجلاس طلب کیا ہے۔ اس میں فلسطین اور اسرائیل سے متعلق موجودہ بحران پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

اس سے پہلے وزارت خارجہ کی سطح پر 18 اکتوبر کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، جس کے بعد ایک طویل بیان میں اسرائیل سے غزہ پٹی کا محاصرہ فوری طور پر ختم کرنے کو کہا گیا تھا۔

ایرانی صدر کی شرکت

سربراہی اجلاس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تمام 57 اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت شرکت کریں گے اور اطلاعات کے مطابق ایرانی صدر پہلے ہی اپنی شرکت کی تصدیق کر چکے ہیں۔

ایک ایرانی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق صدر ”ابراہیم رئیسی ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے، جہاں مسئلہ فلسطین پر بات کی جائے گی۔”

گزشتہ مارچ میں چین کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت تہران اور ریاض کے درمیان برسوں کی دشمنی ختم ہونے کے بعد کسی بھی ایرانی سربراہ مملکت کا یہ پہلا دورہ سعودی عرب ہو گا۔

البتہ پاکستان کی جانب سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ سربراہی اجلاس میں کون شرکت کرے گا۔ لیکن یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اس مسئلے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے صدر پاکستان یا وزیر اعظم ریاض میں ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں۔

سابقہ اجلاس میں کیا کہا گیا؟

اٹھارہ اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں تمام اسلامی ممالک نے فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ اس میں خاص طور پر فلسطینیوں کے حق خود ارادیت، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی، ان کی آزادی کا حق اور ایک ایسی آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعادہ بھی کیا گیا، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔

پاکستانی وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے او آئی سی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے اس ہنگامی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی اور انہوں نے بھی اسرائیلی پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا، ”اسرائیل کی جانب سے طاقت کا غیر متناسب استعمال جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔”

تنظیم نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں کہا تھا کہ ”کسی بھی بہانے سے عام شہریوں کو نشانہ بنانے یا انہیں ان کے گھروں سے بے گھر کرنے، یا تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین اور بنیادی انسانی ہمدردی کے اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں بھوکا رکھنے اور انسانی امداد تک محفوظ رسائی سے محروم رکھنے کو مسترد کیا جاتا ہے۔”

اس مشترکہ اعلامیے میں انسانی تباہی کو روکنے میں ناکامی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر بھی سخت تنقید کی گئی تھی۔ اس حوالے سے تنظیم نے اسرائیل کے حامیوں پر ”دوہرا معیار” اپنانے کا الزام بھی لگایا تھا۔

او آئی سی نے تمام شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ اس نے فوجی کشیدگی کو ختم کرنے، غزہ پٹی کا محاصرہ ختم کرنے اور شہریوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کے لیے فوری تعاون کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں