شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر مزید امریکی حملے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/اے ایف پی/ڈی پی اے) امریکہ کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں کا مقصد عراق اور شام میں اتحادی فوجیوں پر حملوں میں استعمال ہونے والی رسد، ہتھیار اور گولہ بارود کو روکنا ہے۔ 27 اکتوبر کو بھی امریکہ نے اسی طرح کے حملے کیے تھے۔

امریکی فوج نے بدھ کے روز دیر رات گئے مشرقی شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے زیر استعمال ایک تنصیب پر فضائی حملہ کیا۔

پینٹاگون نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ خطے میں پچھلے کئی ہفتوں سے امریکی فوجیوں کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور یہ اسی کے خلاف ایک جوابی کارروائی ہے۔

وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا کہ ”امریکی اہلکاروں کی حفاظت سے زیادہ صدر کی کوئی اور ترجیح نہیں ہے اور انہوں نے اس بات کی وضاحت کے لیے آج کی کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی کہ امریکہ اپنا، اپنے اہلکاروں اور اپنے مفادات کا دفاع کرے گا۔”

حالیہ ہفتوں میں امریکہ کا اس نوعیت کا یہ دوسرا حملہ ہے، اس سے پہلے 27 اکتوبر کو بھی اس کے جنگی طیاروں نے شمالی شام کے بعض ٹھکانوں کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا تھا کہ وہاں ایرانی حمایت یافتہ گروپ سرگرم تھے۔

پاسداران انقلاب فورسز کو نشانہ بنایا گیا

لندن میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس حملے میں ”تہران کے حمایت یافتہ گروپوں کے لیے کام کرنے والے” 9 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

آسٹن نے کہا کہ دو ایف 15 جنگی طیاروں نے ایرانی فورسز پاسداران انقلاب کے ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کی گوداموں پر حملہ کیا۔

اکتوبر کے آغاز سے لے کر اب تک عراق اور شام میں امریکی اور اتحادی فوجیوں پر ایرانی حمایت یافتہ فورسز نے کم از کم 40 بار حملے کیے ہیں۔

آسٹن نے خبردار کیا کہ امریکہ ”اپنے لوگوں اور ہماری سہولیات کے تحفظ کے لیے مزید ضروری اقدامات کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔”

شام میں 900 امریکی فوجی جبکہ عراق میں 2,500 فوجی تعینات ہیں، جو نام نہاد شدت پسند تنظیم ”اسلامک اسٹیٹ” گروپ کی دوبارہ کھڑے ہونے کی کوشش کو روکنے میں مقامی فورسز کی مدد کر رہے ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کی وجہ سے خطے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اور یہ حملے اسی تناظر میں کیے گئے ہیں۔

امریکی فضائیہ نے 27 اکتوبر کو بھی شمالی شام میں حملے کیے تھے اور اس وقت بھی پینٹاگون نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان حملوں میں ایرانی فورسز کے زیر استعمال ہتھیاروں اور گولہ بارود کو ذخیرہ کرنے والے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس نے بتایا تھا کہ اس کے ایف سولہ جنگی طیاروں نے عراق کی سرحد پر واقع ایک قصبے ابو کمال کے قریب حملہ کیا۔ تاہم اس وقت جانی نقصان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں