بھارتی کشمیر میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے مظاہروں پر پابندی

نئی دہلی (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل حماس جنگ کے دوران فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی پر قدغن کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق کشمیر کے مکینوں اور مذہبی علما کا کہنا ہے کہ حکام نے بھارت کے اس مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے احتجاج پر پابندی عائد کر دی ہے اور مبلغین کو خطبات میں جنگ کا ذکر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں بھارت کی ان کوششوں کا حصہ ہے کہ ایسے کسی بھی قسم کے احتجاج کی حوصلہ شکنی کی جائے جو اس متنازع خطے میں نئی دہلی کی حکمرانی ختم کرنے کے مطالبے میں بدل جائے۔

مبصرین کے مطابق یہ بھارت کی ایک طویل عرصے سے فلسطینیوں کی حمایت کی پالیسی سے ہٹنے کی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے تحت ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی بھی عکاس ہیں۔

بھارت کے تاریخی طور پر اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ نئی دہلی نے سات اکتوبر کے حماس کے اسرائیل پر حملے کی مذمت کی تھی اور اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ اصرار بھی کیا کہ غزہ میں شہریوں کی اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہاں بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری ہونی چاہیے۔

کشمیر میں حالیہ اقدامات پر میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ فلسطین ہمیں بہت عزیز ہے۔ ہمیں وہاں جبر کے خلاف لازمی طور پر آواز اٹھانی چاہیے۔ لیکن ہمیں خاموش رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

مودی ان پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔

تاہم بارہ اکتوبر کو بھارت کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا اور فلسطینیوں کی ایک خود مختار ریاست کے قیام کی حمایت کے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا۔

اس بیان کے اجرا کے دو ہفتے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت نے اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا جس میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے کہا گیا تھا۔

امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ یہ غیرمعمولی بات ہے۔

کوگل مین نے کہا کہ بھارت بھی اسرائیل کی طرح غزہ پر اسرائیلی حملے کو انسدادِ دہشت گردی کی کارروائی کے طور پر دیکھتا ہے جس کا مقصد حماس کو ختم کرنا ہے نہ کہ شہریوں کو براہِ راست نشانہ بنانا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نئی دہلی کے نقطۂ نظر سے ایسی کارروائیوں میں انسانی بنیادوں پر وقفہ نہیں دیا جاتا۔

واضح رہے کہ فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں غیر ملکیوں سمیت 1400 افراد مارے گئے تھے جب کہ جنگجو 200 سے زیادہ افراد کو یرغمال بنا کر غزہ کی پٹی لے گئے تھے۔

امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی غزہ کی پٹی میں فضائی و زمینی کارروائی جاری ہے۔

اسرائیل کے حملوں میں اب تک حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 10 ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں