اسرائیلی جنگی طیاروں کے شام میں متعدد اہداف پر فضائی حملے

تل ابیب + دمشق (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/ڈی پی اے) اسرائیلی جنگی طیاروں نے اتوار بارہ نومبر کی صبح ہمسایہ ملک شام میں کئی اہداف پر نئے فضائی حملے کیے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس کارروائی میں اسرائیل پر حملوں کے لیے استعمال ہونے والے بنیادی ڈھانچوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی طرف سے یروشلم میں اتوار کے روز بتایا گیا کہ ان فضائی حملوں میں ”دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال ہونے والے بنیادی ڈھانچوں‘‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ ملکی عسکری حکام کے بقول اسی انفراسٹرکچر کی مدد سے قبل ازیں سرحد پار شام سے گولان کی پہاڑیوں پر فائرنگ کی گئی تھی۔

آئی ڈی ایف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ 12 نومبر کی صبح جنگی ہوائی جہازوں کی مدد سے کی جانے والی یہ اسرائیلی کارروائی ہفتہ 11 نومبر کی رات سرحد پار سے کیے جانے والے ایک حملے کا ردعمل تھی۔

اس سے قبل کل ہفتے کی رات اسرائیل کی طرف سے کہا گیا تھا کہ شام سے فائر کیے جانے والے دو پروجیکٹائلز گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقے میں دو غیر آباد مقامات پر گرے تھے، جن سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ان حملوں کے بعد تاہم اسرائیلی حکام نے علاقے میں راکٹ حملوں سے خبردار کرنے والے سائرن بجا دیے تھے۔

مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کے شام میں متعدد اہداف پر آج کیے جانے والے حملے رواں ہفتے کے دوران اپنی نوعیت کے اولین حملے نہیں تھے۔ ان سے پہلے جمعہ 10 نومبر کو بھی اسرائیلی طیاروں نے شام پر اس وقت فضائی حملے کیے تھے، جب شامی علاقے سے بھیجا جانے والے ایک ملٹری ڈرون جنوبی اسرائیلی شہر ایلات میں ایک سکول کے اوپر گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

گولان کے پہاڑی علاقے کی قانونی حیثیت

گولان کی پہاڑیوں والے شامی سرحدی علاقے کے زیادہ تر حصے پر اسرائیل نے انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور بعد ازاں اسے اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا تھا۔

بین الاقوامی سطح پر گولان کی پہاڑیوں کا شامی علاقہ آج بھی مقبوضہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اقوام متحدہ نے اس خطے کا اسرائیل میں یکطرفہ طور پر لیکن باقاعدہ ضم کیا جانا آج تک تسلیم نہیں کیا۔

اسرائیلی فوج غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں عسکریت پسند تنظیم حماس کے خلاف اپنی جو جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، اسی کے پس منظر میں شام اور اسرائیل کے درمیان سرحد پار فائرنگ اور حملوں کے واقعات کے ساتھ ساتھ لبنانی اسرائیلی سرحد کے آر پار بھی فائرنگ کے تبادلے کے واقعات اب پہلے سے کافی زیادہ ہو چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں