فرانسیسی عدالت نے شامی صدر بشار الاسد کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے

پیرس (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) فرانس نے شام کے صدر بشار الاسد پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سےمتعلق انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے کے الزام میں گرفتاری کے لیے بین الاقوامی وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔

خبر رساں ادارے “ایجنسی فرانس پریس” نے ایک عدالتی ذریعے اور مقدمے کے مدعی کے حوالے سے سے منگل کو رپورٹ دی کہ صدر بشار الاسد پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

شام میں حزب اختلاف کا الزام ہے کہ اسد حکومت نے اگست 2013 میں دارالحکومت دمشق کے قریب ایک حملے میں 1400 لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔

شامی فوج کی الیٹ یونٹ کے سربراہ سمجھے جانے والے صدر اسد کے بھائی مہر، اور فوج کے دو جرنیلیوں کے گرفتاری کے لیے بھی وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔

فرانس کی انسانیت کے منافی جرائم کی عدالت ، سال 2021 سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر تحقیقات کر رہی ہے۔

اسد کے خلاف الزامات کی تحقیقات کا آغاز جن تنظیموں کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں پر ہوا ان میں شام کا سنٹر برائے میڈیا اور آزادی رائے، وکلا کی تنظیم “اوپن جسٹس انیشی ایٹو” اور انسانی حقوق کی پامالی کے ریکارڈ جمع کرنے والا گروپ “سیریئن آرکائیو ” شامل ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، “سنٹر فار میڈیا اینڈ فریڈم آف ایکسپریشن” کے سربراہ میزن درویش نے اسد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک غیر جانبدار jurisdiction نے تسلیم کیا ہے کہ کیمیائی حملہ شام کے صدر کے علم کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا، اور یہ کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے اور انہیں (اسد) اس کے لیےذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔

سرگرم کارکنوں کی جانب سے پوسٹ کیے گئے ویڈیوز میں اس حملے کے اثرات کو دکھایا گیا جس میں درجنوں لاشوں کی فوٹیج شامل تھی۔ ان میں بہت سے بچے تھے جو زمین پرپڑے ہوئے تھے۔

دوسری تصاویر میں بے ہوش بچوں کو دکھایا گیا تھا۔ کچھ تصویروں میں لوگوں کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔

ان حملوں کی عام لوگوں کی بنائی گئی ویڈیوز اور انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے تصویریں سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں 2013 کے حملوں کی مذمت کی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس حملے میں سیرن (Sarin) گیس کے استعمال کے شواہد پائے گئے تھے۔

شام نے 2013 میں کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کے لیے کام کرنے والی تنظیم او پی سی ڈبلیو میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ تب سے او پی سی ڈبلیو نے شام کی خانہ جنگی کے دوران ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

شام نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

شام میں خانہ جنگی 2011 میں شروع ہوئی تھی جب اسد نے ایک پر امن مظاہرے کو طاقت کے استعمال سےکچلنے کی کوشش کی جس سے اس مطاہرے نے ایک مہلک تصادم کی صورت اختیار کر لی۔ اس کے بعد دنیا بھر سے بہت سے جہادی اور بیرونی ممالک اس لڑائی میں شامل ہوگئے۔

اس جنگ میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے اور شام کی نصف آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں