اسرائیل پر حماس کا حملہ: مسلم تنظیمیں مذمت کریں، جرمن وزیر داخلہ

برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے) وفاقی جرمن وزیر داخلہ نے مسلم انجمنوں پر زور دیا ہے کہ وہ یہود دشمنی کے خلاف سخت موقف اختیار کریں۔ نینسی فیزر نے کہا کہ جرمنی میں بڑی اسلامی تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی سامیت دشمنی کے خلاف آواز اٹھائیں۔

جرمنی کی وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے منگل کو ایک بیان میں جرمنی میں سرگرم تمام بڑی اسلامی تنظیموں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یہودیوں سے نفرت اور اسرائیل سے دشمنی کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ فیزر نے یہ بھی واضح کیا کہ جرمنی میں مسلمانوں کو کسی بھی انتہا پسندانہ دہشت گردی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔

سوشل ڈیمو کریٹ سیاست دان فیزر نے مزید کہا کہ وہ اس سلسلے میں واضح اقدامات دیکھنا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک غلط عمومی شبہ مسلم مخالف جذبات کو جنم دیتا ہے جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جرمن وزیر داخلہ کے یہ بیانات برلن میں جاری دو روزہ اسلام کانفرنس کے موقع پر سامنے آئے۔ اس بار اس کانفرنس میں غزہ کی جنگ کے جرمن معاشرے پر اثرات کا موضوع مرکزی اہیمت کا حامل ہے۔

جرمن وزیر نے مسلم گروپوں سے کہا کہ وہ 7 اکتوبر کو ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کی واضح طور پر مذمت کریں اور اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔

جرمنی تقریباً 5.5 ملین مسلمانوں کا گھر ہے اور اسلام جرمنی میں دوسرا بڑا مذہب ہے۔

نینسی فیزر نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ”میں توقع کرتی ہوں کہ مسلم تنظیمیں ایک واضح پوزیشن اختیار کریں گی اور معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مسلم گروپوں کی طرف سے حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کی ”واضح طور پر مذمت‘‘ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ”ہاں، مگر‘‘ سے کام لیا جائے۔ جرمن وزیر کے بقول، ”یہ بالکل واضح ہونا چاہیے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘ فیزر نے مزید کہا، ”کچھ مسلم گروپوں نے واقعتاً اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں، تاہم کچھ دیگر نے نہیں۔‘‘

مسیحی اور یہودی برادریوں اور مسلمانوں کے گروپوں کے نمائندوں کی ایک کانفرنس سے قبل جرمن وزیر داخلہ نے کہا، ”ہماری اقدار کے دفاع کی آوازیں بلند ہونا چاہییں۔‘‘

واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے پس منظر میں منعقد ہونے والے اس دو روزہ اجلاس میں سامیت دشمنی اور مسلم مخالف نسل پرستی سے لڑنے کے موضوع کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔

حماس کے جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حملہ کر کے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

جوابی کارروائی کے طور پر اسرائیل نے غزہ میں مسلسل بمباری اور زمینی کارروائی شروع کر دی تھی۔ غزہ کا انتظام 2007 سے حماس کے پاس ہے۔ حماس کی حکومت کے مطابق اس جنگ میں اب تک 13,300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں جرمنی کے بڑے شہروں میں فلسطینیوں کی حمایت میں بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا گیا، جن میں سے کچھ پر یہود مخالف کارروائی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان میں شریک درجنوں افراد کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی تھیں۔

جرمنی تقریباً 45 ملین مسیحیوں کا گھر ہے، جن میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک دونوں عقائد کے پیروکار مسیحی شامل ہیں جبکہ اس یورپی ملک میں تقریباً دو لاکھ یہودی بھی آباد ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں