ہیومن رائٹس واچ کا چین پر “مساجد” کو بند و تباہ کرنے کا الزام

نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی نئی رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ چین مساجد کو منہدم کر کے اپنی طرز کی عمارتیں تعمیر کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت کی یہ پالیسیاں مذہبی آزادی سے متعلق حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انسانی حقوق کی معروف تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے چین سے متعلق اپنی جو نئی رپورٹ جاری کی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ مسلم آبادی والے علاقوں میں چینی حکومت مساجد کو بند کرنے کا کام کر رہی ہے، یا پھر انہیں منہدم کر کے حکام اپنے طرز کی نئی عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں۔

ادارے نے الزام عائد کیا کہ حکام کی جانب سے یہ کریک ڈاؤن چین میں اسلامی روایات کو روکنے کی ایک “منظم کوشش” ہے۔

چین میں تقریباً دو کروڑ مسلمان آباد ہیں اور بیشتر مسلمان ملک کے شمال مغرب میں رہتے ہیں، جس میں سینکیانگ، گانسو اور ننگزیا کے علاقے شامل ہیں۔

سرکاری طور پر چین اپنے آپ کو ایک لادین ریاست کہتا ہے، تاہم اس کا کہنا ہے کہ ملک مذہبی آزادی کی پوری اجازت دیتا ہے۔

البتہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں چین میں مذہب کے خلاف منظم کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا ہے اور اس طرح بیجنگ زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ تاہم بیجنگ ایسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کی تازہ رپورٹ میں کیا ہے؟

چین سے متعلق ہیومن رائٹس واچ کی قائم مقام ڈائریکٹر مایا وانگ نے اس رپورٹ کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’چینی حکومت کی جانب سے مساجد کی بندش، ان کی تباہی اور دوبارہ تعمیر کرنے کا عمل، چین میں اسلامی روایات کو روکنے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہیں۔‘‘

ادارے کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ کے علاقے میں ایغور مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کے بڑھتے ہوئے شواہد کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق ننگزیا کے خود مختار علاقے میں واقع ایک مسلم اکثریتی گاؤں لیاؤقیاؤ میں قائم چھ مساجد میں سے تین مساجد کے گنبد اور مینار ختم کر دیے گئے ہیں، جبکہ باقی مساجد میں عبادت کے لیے مخصوص مرکزی ہالوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کی طرف سے حاصل کردہ سیٹلائٹ فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ لیاؤقیاؤ گاؤں کی ایک مسجد کے ایک گول گنبد کو اکتوبر سن 2018 اور جنوری 2020 کے درمیان کسی وقت چینی طرز کے پگوڈا سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح کے ایچ آر ڈبلیو کی طرف سے تصدیق شدہ ایک اور ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جنوبی ننگزیا میں لیوجیاگو مسجد میں وضو کے ایک ہال کو اس کے دو میناروں اور ایک گنبد کو ہٹانے کے فوری بعد اسے منہدم کیا جا رہا ہے۔

گانسو صوبے کی سرحد ننگزیا کے ساتھ ہی ملتی ہے اور وہاں حکام نے وقتاً فوقتاً مساجد کو بند یا پھر انہیں تبدیل کرنے کے اعلانات کرتے رہے ہیں۔

ایشیا خطے سے متعلق ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر ایلین پیئرسن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے عرب اور مسلم رہنماؤں کو اس بارے میں چین سے ’’سوال پوچھنے کے ساتھ ہی خدشات کا اظہار‘‘کرنا چاہیے۔

چین کی پالیسی

یہ پہلی بار نہیں کہ چین میں مسلمانوں یا مساجد سے متعلق اس طرح کی رپورٹ سامنے آئی ہو۔ تاہم بیجنگ کا اصرار ہے کہ ملک میں مذہبی آزادی کے بنیادی حق کی اجازت ہے اور وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

تاہم چین کے رہنما شی جن پنگ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی مذہب کو اپنے سیاسی نظریے اور چینی ثقافت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔

سن 2018 میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے ایک دستاویز شائع کی تھی، جس میں مساجد کے کنٹرول اور استحکام کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اس میں ریاستی حکومتوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اس طرح کے ڈھانچوں کی مجموعی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کریں۔

اس دستاویز کے مطابق مساجد کی تعمیر، ترتیب اور اس کی فنڈنگ کی “سخت نگرانی” کی جانی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں