سکھ رہنما کے قتل کی سازش: سینیئر بھارتی سرکاری اہلکار ملوث، امریکہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز/اے پی) امریکی حکام نے نیو یارک میں مقیم ایک ممتاز سکھ علیحدگی پسند لیڈر کے قتل کے منصوبے میں ایک بھارتی شہری کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ محکمہ انصاف کے مطابق بھارتی انٹیلیجنس کا ایک سینیئر فیلڈ افسر بھی قتل کی سازش میں ملوث تھا۔

امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے بدھ کے روز منظر عام پر لائی گئی دستاویزات میں گوکہ بھارت کے سرکاری اہلکار کا نام نہیں بتایا گیا تاہم کہا گیا ہے کہ وہ نئی دہلی میں ایک سرکاری دفتر میں دوسروں کے ساتھ کام کرتا تھا اور ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کو امریکی سرزمین پر قتل کرنے کے ناکام منصوبے میں وہ بھی شامل تھا۔

وفاقی استغاثہ نے الزام لگایا ہے کہ ملزم بھارتی حکومت کی ایما پر کام کر رہا تھا اور سکھ رہنما کے قتل کا انتظام کرنے کے لیے ایک دوسرے بھارتی شہری نکھل گپتا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

امریکہ کے وفاقی دفتر استغاثہ کا الزام ہے کہ اس بھارتی اہلکار نے گپتا کے ساتھ بار بار رابطہ کیا اور انہوں نے سکھ سیاسی رہنما گروت پنت پنون کے قتل کے معاوضے کے طور پر ایک لاکھ ڈالر میں سے پیشگی ادائیگی کے طور پر گپتا کو پندرہ ہزار ڈالر دیے تھے۔

باون سالہ گپتا، جو اس وقت جمہوریہ چیک میں زیر حراست ہیں، کو امریکہ کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ انہیں مبینہ سازش کے سلسلے میں امریکہ میں کرائے کے قتل، سازش اور دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے۔

بھارت کے لیے ایک نیا سفارتی سر درد

امریکہ کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب کینیڈا نے اپنی سرزمین پر ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کے واقعے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔

نیو یارک کے حصے مین ہیٹن میں وفاقی استغاثہ نے کہا کہ اس سازش میں ملوث بھارتی سرکاری اہلکار نے سکیورٹی اور انٹیلیجنس جیسی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ استغاثہ نے تاہم اس بھارتی اہلکار کا نام ظاہر نہیں کیا۔

مین ہیٹن میں اعلیٰ وفاقی پراسیکیوٹر ڈیمیئن ولیمزنے بتایا، ”مدعا علیہ نے نیو یارک شہر میں مقیم ایک بھارتی نژاد امریکی شہری کو، جنہوں نے سکھوں کے لیے ایک علیحدہ خود مختار ریاست کی عوامی طور پر حمایت کی تھی، قتل کرنے کے لیے سازش کی۔‘‘

انہوں نے کہا، ”ہم امریکی سرزمین پر امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

معاملہ الٹا کیسے پڑ گیا؟

استغاثہ کا الزام ہے کہ بھارتی سرکاری اہلکار کی ایما پر نکھل گپتا نے ایک ایسے شخص سے رابطہ کیا، جس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ وہ قتل کی واردات کے لیے کسی قاتل کے حصول میں مدد کر سکتا ہے۔ لیکن گپتا نے جس شخص سے رابطہ کیا تھا، وہ دراصل امریکی ڈرگ انسفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کا ایک خفیہ ایجنٹ تھا۔

چیک جمہوریہ نے نکھل گپتا کو جون میں گرفتار کیا تھا۔ انہیں کرائے پر قتل اور قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے دو مقدمات کا سامنا ہے، جن میں زیادہ سے زیادہ بیس سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ امریکہ نکھل گپتاکی حوالگی کا منتظر ہے۔

بھارت کا ردعمل

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی نے کہا، ”یہ تشویش کی بات ہے اور ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔‘‘

انہوں نے ایک بیان میں کہا، ”امریکہ نے منظم مجرموں، بندوق بازوں، دہشت گردوں اور دیگر کے درمیان گٹھ جوڑ سے متعلق کچھ معلومات شیئر کی ہیں۔‘‘

بیان میں کہا گیا ہے، ہم نے بھی اشارہ کیا تھا کہ بھارت اس طرح کی معلومات کو سنجیدگی سے لیتا ہے کیونکہ یہ ہمارے قومی سلامتی کے مفادات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”اس معاملے کے تمام متعلقہ پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے 18نومبر کو ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی تھی۔‘‘

یہ نئی پیش رفت ایسے وقت پر ہوئی ہے جب امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ نے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ، جسے دونوں ملک خطرہ سمجھتے ہیں، کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کو مزید وسعت دینے کی کوشش کی ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کینیڈا اور امریکہ دونوں ملکوں میں رہنے والے سکھ علیحدگی پسند گروپوں کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ نئی دہلی ان سرگرمیوں کو بھارت میں ایک آزاد سکھ ریاست، خالصتان، کے قیام کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے ذمہ دار سمجھتا ہے۔ بھارت اس تحریک کو اپنی قومی سلامتی کے لیے بھی ایک خطرہ قرار دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں