اسلام آباد (ویب ڈیسک) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران انہیں ہدف بنا کر سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے صحافیوں اور شیعہ تنظیموں کے خلاف تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔
اس سلسلے میں 13مارچ کو لکھے گئے خط کی نقل ڈان نیوز ٹی وی کو موصول ہوئی جس کی ایف آئی اے ذرائع نے مستند ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
یہ نوٹیفکیشن اس وقت سے سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے جب صحافی مرتضیٰ سولنگی، جن کا نام بھی اس نوٹس میں شامل ہے نے اپنے خلاف تحقیقات شروع ہونے پر شدید احتجاج کیا تھا۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا تھی کہ تو عمران خان کی شرمناک حکومت کو مقتول صحافی جمال خاشقجی کی تصویر ٹوئٹر پروفائل پر لگانے سے مسئلہ ہے اور وہ اسے قانون کے خلاف تصور کرتے ہیں؟۔
So the shameful govt of @ImranKhanPTI has a problem with putting the picture of slain journalist #JamalKhashoggi on your twitter profile and considers it against the law? Come arrest me, you shameless creatures. pic.twitter.com/4YJIirSKgB
— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) March 27, 2019
اس خط پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری عبدالرؤف نے دستخط کیے ہیں جس میں راولپنڈی میں ایف آئی اے کے تمام ایڈیشنل ڈائریکٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان 6 صحافیوں اور افراد کے ساتھ ساتھ 4 تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی شروع کرے۔
جن صحافیوں کے ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹس کی انکوائری کرنے کا کہا گیا ہے ان میں جیو، جنگ، دی نیوز گروپ آف میڈیا سے وابستہ معروف صحافی عمر چیمہ، ٹی وی اینکر مطیع اللہ جان، کیپٹل نیوز ٹی وی کے مرتضی سولنگی، روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی اعزاز سید، ٹی وی اینکر عمار مسعود اور معروف بلاگر احمد وقاص گورایہ شامل ہیں۔
احمد وقاص گورائیہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
میں نے ایف آئی اے کو جواب دے دیا ہے۔ اور جلد عدالت میں ملاقات ہو گی۔
میرا جواب
????????— Ahmad Waqass Goraya ???????? (@AWGoraya) March 28, 2019
#Pakistan's FIA should stop harassing journalists over social media posts. Is there any wonder why journalists wave the flag of #JamalKhashoggi? He was one of them, murdered for his work. pic.twitter.com/nL1DgZTjx4
— CPJ Asia (@CPJAsia) March 27, 2019
جن چار جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف تحقیقات کیہ دایت کی گئی ہے ان میں مجلس وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، حزب التحریر اور تعمیر وطن پارٹی شامل ہیں۔
اس خط میں کہا گیا کہ سعودی ولی عہد کے دورے کو ہدف بنا کر منصوبہ بندی کے تحت سوشل میڈیا پر مہم شروع کی گئی جس کے دوران کچھ سوشل میڈیا صارین اور گروپس دورے کے آخری دن تک خاص طور پر متحرک رہے۔
خط میں صحافیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ان صارفین نے سوشل میڈیا پر اپنی پروفائل تصویر سعودی صحافی جمال خاشقجی کی لگائی جس سے مہمان کی تضحیک کا پیغام گیا۔
جن گروپس کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے ان کے بارے میں اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ گروپس محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ متحرک رہے۔
تمام ایڈیشنل ڈائریکٹرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی تفتیشی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز خان کو جمع کرائیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں استنبول کے سعودی سفارتخانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد محمد بن سلمان کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
نومبر میں امریکی خفیہ ادارے نے قتل کی تفتیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس قتل کے پیچھے سعودی ولی عہد تھے تاہم سعودی عرب نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔
سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 20ارب ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے۔
@murtazasolangi: “Media in Pakistan was already muted and silenced, and this is a fresh attempt to make Pakistan look like an appendage of the Saudi monarchy." https://t.co/1BoDfl1DkZ via @GandharaRFE
— Abubakar Siddique (@sid_abu) March 28, 2019