غزہ جنگ کا اگلا مرحلہ: امریکہ نے اسرائیل کیلئے کیا ’ریڈ لائن‘ واضح کی ہیں؟

واشنگٹن + تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) جنگ بندی جتنی دیر چلی یہ ایک سفارتی کامیابی تھی۔ اب سات دن کے وقفے کے بعد اسرائیل اور حماس کو اپنے سب سے بڑے عسکری اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔

حماس کے لیے یہ بقا کی جنگ ہے۔ جب تک حماس کے پاس ایسے جنگجو ہیں جو گولی چلا سکتے ہیں یا اسرائیل کی جانب راکٹ داغ سکتے ہیں وہ یہ دعویٰ کریں گے کہ انھیں شکست نہیں ہوئی۔

اسرائیل ایک بڑی عسکری طاقت ہے لیکن اس کے اہداف کافی پیچیدہ ہیں۔

اس کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے اسرائیل پر حماس کے حملے میں تقریباً 1200 لوگوں کی ہلاکت کے بعد ’طاقتور انتقام‘ کا وعدہ کیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے جارحیت کے آغاز کے کچھ گھنٹوں میں ہی حکومت نے ایک واٹس ایپ پوسٹ کے ذریعے جنگی مقاصد کو حاصل کرنے کا عزم کیا۔ انھوں نے کہا ’یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا خاتمہ اور اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ اسرائیلی شہروں کے لیے دوبارہ کبھی خطرہ نہ بنے‘ ان کے مقاصد ہیں۔

یہ مقاصد کیسے حاصل کرنے ہیں اور اس کے بعد کیا ہو گا یہ وہ باتیں ہیں جن پر اسرائیلی وزیر اعظم ان کے سیاسی اتحادی، اسرائیل میں ان کے حریف اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن گہری سوچ میں مبتلا ہیں۔ جنگ کے ابتدا سے امریکی وزیر خارجہ چار بار اسرائیل اور خطے کا دورہ کر چکے ہیں۔

شاید انتھونی بلنکن کو معلوم تھا کہ جسے وہ ’انسانی بنیادوں پر وقفے‘ کا نام دے رہے ہیں اسے بڑھانے کی ان کی کوشش ناکام ہو گی۔

جنگ کے دوبارہ شروع ہونے سے پہلے کی شام کو انھوں نے امریکہ کی اسرائیل کے لیے حمایت دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے اور انھوں نے حماس کی مذمت کی۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا ’اسرائیل ایک ایسے دہشتگرد گروہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور جنگی قوانین کے مطابق کارروائی کر رہا ہے جبکہ وہ (حماس) دونوں کا احترام نہیں کرتے۔‘

لیکن اس کے بعد وزیر خارجہ بلنکن نے اب تک کا سب سے طویل عوامی بیان دیا جس میں انھوں نے بتایا کہ اسرائیل کو یہ جنگ کیسے لڑنی چاہیے۔

اس کو پورا بتانا چاہیے کیونکہ یہ امریکہ کی اپنے سب سے قریبی اتحادی اسرائیل کے ایک قسم کی توقعات کی فہرست ہے۔

سیکرٹری بلنکن نے کہا اس کا مطلب ہے ’عام شہریوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدام اٹھانا، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جنوبی اور وسطی غزہ میں واضح طور پر ایسے مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں وہ خطرے سے دور اور محفوظ رہ سکیں۔‘

’اس کا مطلب ہے کہ غزہ کے اندر شہریوں کی مزید نمایاں نقل مکانی سے گریز کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی کے اہم انفراسٹرکچر کو نقصان نہ پہنچایا جائے جیسے ہسپتال، پاور سٹیشن، پانی کی سہولیات۔‘

’اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حالات اجازت دیں تو بےگھر ہو کر جنوبی غزہ میں جانے والوں کو شمال جانے کا حق دینا۔ کوئی مستقل اندرونی نقل مکانی نہیں ہونی چاہیے۔‘

جنگ کی ابتدا میں امریکی صدر جو بائیڈن یہاں آئے تھے۔ انھوں نے اسرائیل کو پرجوش طریقے سے گلے لگایا لیکن اس کے ساتھ اپنے اتحادی کو انتباہ بھی کیا کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے غصے میں اندھے نہ ہو جائیں جیسے القائدہ کے نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ ہو گیا تھا۔

سیکرٹری بلنکن کے بیان سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ صدر جو بائیڈن کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نیتن یایو نے ان کی بات نہیں سنی۔ صدر بائیڈن کے نیتن یاہو کے ساتھ مشکل تعلقات رہے ہیں۔

جنگ کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اگلے مرحلے میں اسرائیل کو جنوبی غزہ میں حماس کو نشانہ بنانا ہے۔ جب انھوں نے شمالی غزہ پر حملہ کیا تھا تو انھوں نے عام شہریوں کو اپنی جان بچانے کے لیے جنوب میں جانے کا حکم دیا تھا۔

اسرائیل نے شمالی غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے، شمال کے مقابلے میں جنوب انتا خطرناک نہیں ہے لیکن غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔

جنگ شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی جنوبی غزہ میں مصر کے ساتھ سرحد رفح میں فلسطینی شہری اسرائیلی فضائی حملے میں مارے جا رہے تھے۔

اسرائیل حماس کو ختم کرنے کا دعویٰ تب تک نہیں کر سکتا جب تک وہ جنوب میں ان کی تنصیبات کو تباہ نہیں کر دیتا۔ یہ وہ حصہ ہے جہاں اسرائیل کا ماننا ہے کہ یحییٰ السنوار دیگر جنگجوئوں اور رہنماؤں سمیت عام شہری عمارتوں کے نیچے سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں۔

اگر اسرائیل نے جنوب میں وہی حکمت عملی اپنائی جو اس نے شمالی غزہ میں استعمال کی تھی تو مزید کئی ہزار عام شہری مارے جائیں گے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پہلے ہی غزہ کے لوگوں کی حالت زار کو ’سنگین انسانی بحران‘ قرار دیا ہے۔

مصر اور دیگر ممالک کو تشویش ہے کہ جنوب میں 20 لاکھ لوگوں پر شدید عسکری دباؤ کی وجہ سے کئی ہزار مجبور لوگ زور لگا کر سرحد عبور کر کے صحرائے سینا میں چلے جائیں گے۔ ایک نیا فلسطینی ریفیوجی بحران مشرق وسطیٰ کے لیے ایک اور خطرناک لمحہ ہوگا۔

فرض کرتے ہیں کہ اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ فلسطینی شہریوں کو ایک علاقے کے بارے میں بتایا جائے گا جہاں وہ محفوظ رہیں گے۔ جس قسم کی شدید جنگ اسرائیل ٹینکوں، فضائی حملوں اور بھاری توپوں سے کر رہا ہے، اس سے جنگ کی کامیابی کے مقابلے یہ زیادہ آسانی سے نظر آ رہا ہے کہ یہ حکمت عملی کیسے ناکام ہو سکتی ہے۔

اگر اسرائیل ایسی حکمت عملی اپناتا ہے جس میں اس کی پیادہ فوج فضائی اور آرٹلری کے بغیر حماس سے مقابلہ کرتی ہے تو اس کا پہلے سے زیادہ نقصان ہو گا۔

اسرائیل کی اگلی چال صدر جو بائیڈن کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ انھیں اسرائیل کی حمایت پر اپنی ہی ڈیموکریٹک پارٹی کی ترقی پسند آوازوں سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جو بائیڈن کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بالکل واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ امریکہ کیا چاہتا ہے کہ اسرائیل حماس سے کیسے لڑے۔ اگر اسرائیل جو بائیڈن کی مرضی کے خلاف جنوبی غزہ میں بھی شمال جتنے ہی عام شہروں کومارتا ہے تو امریکی صدر کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا وہ میدان جنگ اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں گے یا نہیں۔ اس سے پہلے امریکہ نے سلامتی کونسل میں کئی مرتبہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے اپنا ویٹو کا اختیار استعمال کیا۔

حماس کی شکست ابھی نہیں ہوئی۔ اس کے پاس اسرائیلی یرغمالی ابھی بھی ہیں جن کو استعمال کر کے وہ اسرائیل کی عسکری کارروائیوں میں خلل ڈال سکتا ہے اور ان کی مدد سے وہ اسرائیل پر نفسیاتی دباؤ بھی ڈال سکتا ہے۔ اگر اسرائیل نے امریکہ کی بات مان کر کم بمباری کی تو یحییٰ السنوار اور ان کے جنگجو اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

یہ جنگ کا نیا مرحلہ ہے، فلسطینی اور اسرائیلی عوام ایک خطرناک اور غیر یقینی مستقبل کی وجہ سے پریشان ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں