تل ابیب (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/وی او اے) اسرائیل نے غزہ کے جنوب میں ہفتے کو بھی بمباری کی جبکہ اس کی کارروائیاں زیادہ تر جنوبی شہر خان یونس کے علاقے پر مرکوز رہیں۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق اسرائیلی فوج نے خان یونس کے علاقے میں مساجد اور اسپتالوں سے ملحقہ گھروں کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان سات روزہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی زمینی و فضائی کارروائی جاری ہے جس کے دوران، حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق جمعے کے بعد سے اب تک 200 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اے پی کے مطابق اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ ہفتے کو اس نے غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں حماس کے 50 اہداف کو نشانہ بنایا ہے جس میں اسے ٹینکوں اور بحریہ کی مدد حاصل تھی۔
اسرائیلی فوج نے ایک روز قبل خان یونس میں لیف لیٹس بھی پھینکے تھے جن کے ذریعے رہائشیوں کو ان مقامات سے دور چلے جانے کو کہا گیا تھا۔
ادھر اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اب تک خان یونس کے علاقے سے لوگوں کا کوئی بڑا انخلا نہیں دیکھا گیا ۔
ایک فلسطینی شہری ایماد حاجر نے ‘اے پی’ کو بتایا کہ “ان کے لیے (وہاں سے) جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔”
حاجر اپنی بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ ایک ماہ قبل غزہ کے شمالی علاقے بیت لاہیا سے خان یونس میں پناہ لینے کے لیے آئے تھے۔ ان کا کہنا ہے، “پہلے ہمیں شمال سے جانے کو کہا اور اب جنوب سے بھی نکلنے کو کہا جا رہا ہے۔”
اے پی کے مطابق بیس لاکھ فلسطینی، یعنی غزہ کی تقریباً تمام آبادی، جنوبی حصے میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔
اسرائیل نے جنگ کے شروع میں لوگوں سے کہا تھا کہ وہ غزہ کے جنوب میں چلے جائیں۔اس کے بعد سے اسرائیل نے زمینی حملے کو غزہ کے دوسرے علاقوں میں پھیلانے کا عہد کیا ہے۔
اس صورت حال میں غزہ کے لوگ نہ تو شمالی حصے میں واپس جا سکتے ہیں اور نہ ہی ہمسایہ ملک مصر ، اب ان کے لیے جنگ سے فرار کی واحد راہ 220 کلومیٹر مربع علاقے کے ارد گردہ گھومنا ہے۔
مصر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نئی جارحیت سے فلسطینی اس کی سرزمین میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
جمعے کو رات گئے ایک بیان میں مصری وزارتِ خارجہ نے کہاتھا کہ قاہرہ کے لیے فلسطینیوں کی جبری منتقلی ایک سرخ لکیر ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ بندی کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے، کوئی امدادی قافلہ یا ایندھن کی ترسیل غزہ میں داخل نہیں ہوئی ہے، اور غزہ کے اندر انسانی بنیادوں پر کارروائیاں بڑی حد تک رک گئی ہیں۔
غزہ میں کام کرنے والی امدادی تنظیم “انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی” نے خبردار کیا ہے کہ لڑائی کے دوبارہ چھڑنے سے جنگ بندی کے ذریعے فراہم کردہ “کم سے کم امداد بھی ختم ہو جائے گی” جو فلسطینی شہریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔”
امریکہ نے اسرئیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں لڑائی کے دوران عام شہریوں کے محفوظ رہنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔
اسرائیل حماس جنگ شروع ہونے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے اپنے تیسرے دورے میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نےکہا کہ غزہ میں شہریوں کی حفاظت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔
دبئی میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ جمعے کو ملاقاتوں کے بعد بلنکن نے کہا کہ “اسرائیل نے حماس کے خلاف لڑائی میں شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی کے لیے اقدامات اٹھانا شروع کردیے ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ اسرائیل نے آج ہی فوراً اقدامات کیے ہیں تاکہ لوگوں کو بتایا جاسکے کہ کون سے علاقے محفوظ ہیں اور وہ نقصان سے کیسے بچ سکتے ہیں۔”
بلنکن کے بقول ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا اسرائیل نے اپنے وعدوں پر پوری طرح عمل کیا ہے۔
"There is nowhere safe. This place is not safe. Under that table is not safe. Children in that hospital are not safe." – @UNICEF Spokesperson James Elder, speaking to UN News from Rafah in southern Gaza ????️⤵️https://t.co/jVLIcw1gaU pic.twitter.com/kGjQ6nm8qz
— UN News (@UN_News_Centre) December 1, 2023
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازع کے حل کے لیے حتمی طور پر دو ریاستوں کے قیام کی ضرورت پر زور دے رہی ہے جس کے تحت اسرائیل اور فلسطینی ریاست ایک ساتھ موجود ہوں۔
یاد رہے کہ امریکہ نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
جنگ بندی کے دوران عسکریت پسند تنظیم نے سات اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے افراد میں سے 105 کو رہا کیا تھا جب کہ اسرائیل نے 240 فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا تھا۔
اب تازہ ترین لڑائی نے اے پی کے مطابق اسرائیل سے اغوا کیے گئے حماس کے قبضے میں بقیہ 136 مغوی افراد کے بارے میں تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔
دوسری طرف جنگ سے بے گھر ہونے والی غزہ کی تین چوتھائی آبادی کو خوراک، پانی اور دیگر سامان کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے جب کہ جنگجو 240کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔
حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر جوابی بمباری میں 15000 لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔