سکھ رہنما کے قتل کی منصوبہ بندی کا معاملہ: امریکی وفد کی بھارت میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں

نئی دہلی (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فنر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ وفد نے بھارت کا دورہ کیا ہے جہاں اس نے امریکہ کی سرزمین پر سکھ رہنما کے قتل کی منصوبہ بندی میں مبینہ طور پر نئی دہلی کے ملوث ہونے کے معاملے پر حکام سے بات چیت کی۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق جان فنر نے نئی دہلی میں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے ملاقاتیں کی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جان فنر نے سکھ رہنما کے قتل کی منصوبہ بندی کی تحقیقات کے لیے بھارت کی جانب سے کمیٹی کے قیام اور ملوث شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی اہمیت کو سراہا۔

گزشتہ ہفتے امریکی محکمۂ انصاف نے الزام عائد کیا تھا کہ بھارتی حکومت کے عہدیدار نے امریکی سرزمین پر ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل کا حکم دیا تھا۔

امریکہ میں جس سکھ رہنما کو قتل کیا جانا تھا، امریکی حکام نے اس کا نام گورپتونت سنگھ پنوں بتایا تھا جو ‘سکھ فار جسٹس’ نامی تحریک کے رہنما ہیں۔

گورپتونت سنگھ امریکہ اور کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں اور وہ خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما ہیں۔

حالیہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ کے صدر جو بائیڈن سمیت قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنس نے اپنے بھارتی ہم منصبوں کے سامنے امریکی سکھ شہری کے قتل کی سازش کے معاملے کو اٹھایا تھا۔

بھارت نے سکھ رہنما کے قتل کی سازش میں سرکاری عہدیدار کا نام سامنے آنے پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ یہ حکومت کی پالیسی نہیں جب کہ نئی دہلی نے خود کو عہدیدار سے الگ کر لیا تھا۔

بھارت نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ امریکہ کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات کی باضابطہ طورپر تحقیقات کرے گا اور خدشات پر ضروری فالو اپ کارروائی کرے گا۔

امریکی محکمۂ انصاف کی دستاویزات کے مطابق بھارتی اہلکار نے سکھ رہنما کے قتل کا بندوبست کرنے کے لیے بھارتی شہری نکھل گپتا کی خدمات حاصل کی تھیں جسے معاوضے کے ایک لاکھ ڈالر میں سے، پیشگی ادائیگی کے طور پر 15 ہزار ڈالر دیے تھے۔

نکھل گپتا اس وقت جمہوریہ چیک میں حراست میں ہیں جنہیں امریکہ میں کرائے کے قتل، سازش اور دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے اور جلد انہیں امریکہ لایا جائے گا۔

امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کی منصوبہ بندی اور اس میں بھارت کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا معاملہ ایسے موقع پر سامنے آیا جب دو ماہ قبل ہی کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے الزام عائد کیا تھا کہ سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔

بھارت نے کینیڈا کے اس الزام کو مسترد کر دیا تھا اور کینیڈین حکومت سے تمام شواہد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم امریکہ کی جانب سے اپنے بھارتی نژاد سکھ شہری کے قتل کی سازش کا الزام سامنے آنے کا معاملہ حیران کن ہے کیوں کہ دونوں ہی ملک چین کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے قریبی تعلقات مضبوط کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت ایک عرصے سے شکوہ کرتا رہا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم سکھ علیحدگی پسند رہنما اس کے لیے خطرہ ہیں۔

بیرونِ ملک مقیم علیحدگی پسند سکھ رہنما اپنی ‘خالصتان تحریک’ کو زندہ کیے رکھے ہیں اور وہ بھارت سے آزادی حاصل کر کے ایک خودمختار ملک بنانا چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں