افغان باغی گروپوں کا نومبر میں 50 طالبان اہلکاروں اور فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

واشنگٹن ڈی سی (ڈیلی اردو/وی او اے) دو افغان باغی گروپوں نے نومبر کے دوران کم از کم 50 طالبان اہلکاروں اور فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان گروپوں میں بنیادی طور پر سابق حکومتی اور فوجی اہلکار شامل ہیں۔

ملک کے شمال اور شمال مشرق میں حملے کے بعد فرار ہونے والے گروپ ارکان کی یہ شورش سب سے زیادہ فعال رہی ہے ۔ان علاقوں میں طالبان کو 1996 سے 2001 تک اپنے سابقہ دور میں نمایاں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شائع کیے گئے دری اور انگریزی میں مختصر بیانات میں افغانستان فریڈم فرنٹ اور نیشنل ریزسٹنس فرنٹ آف افغانستان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے جنگجو طالبان کے ارکان کو چوکیوں، فوجی اڈوں اور یہاں تک کہ شاہراہوں پر بھی باقاعدگی سے نشانہ بناتے ہیں۔

طالبان نے دوسری جانب مسلح شورش کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے ملک میں امن و سکون مکمل طور پر بحال ہو گیا ہے۔

طالبان کے دور حکومت میں افغان میڈیا بری طرح متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے درست معلومات تک رسائی اور باغی گروپوں کے دعوؤں کی تصدیق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

امریکہ کی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی میں انسداد دہشت گردی شعبے کے سابق سربراہ رابرٹ گرینیئر نے کہا کہ ’’اس وقت اس قیاس آرائی کی وجہ بہت کم ہے کہ یہ باغی گروپ طالبان کی حکومت کے لیےکوئی اہم خطرہ ہیں۔‘‘ رابرٹ گرینیئر نے2001 سے پہلے ان طالبان مخالف گرپوں کے ساتھ کام بھی کیا تھا۔

گرینیئر نے ای میل کے ذریعے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک ایسے شخص کے طور پر جو طالبان مخالف گروپوں اور کمانڈروں کو منظم کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش میں سرگرم عمل تھا، اس حیثیت سے میں اس بات کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی موثر بغاوت کو منظم کرنے میں دشواری تھی۔ اس کی ایک وجہ طالبان کی جانب سےوہ بربریت ہے جس کا مظاہرہ وہ اپنے دشمنوں سے نمٹتے ہوئے کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان پر ماورائے عدالت قتل، حراست، تشدد اور طالبان مخالف گروہوں کی حمایت کرنے کے شبہ میں افراد کو لا پتہ کرنے کا الزام لگاتی ہیں۔باغیوں کے پاس کم از کم مستقبل قریب میں طالبان کا تختہ الٹنے کے لیے کافی قوت نہیں۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ وہ اسلام پسند حکومت کے لیے سیاسی اور حکمرانی کے چیلنجز ضرور پیدا کر رہے ہیں۔

سیاسی پناہ گاہیں

سابق افغان حکام کے درمیان طالبان سے لڑائی ایک متنازعہ مسئلہ بن چکا ہے۔ تاہم اقتدار پر طالبان کی اجارہ داری اور ان کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف سیاسی مخالفت تقویت پکڑ رہی ہے۔

اشرف غنی اور حامد کرزئی دو سابق افغان صدور نے طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد کے برسوں میں الگ الگ ادوار میں افغانستان کی قیادت کی اورانہوں نے جنگ کے ذریعے طالبان کے خاتمے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ایسے سیاسی تصفیے کی وکالت کی جس کے نتیجے میں ایک جامع حکومت کی تشکیل ہو۔

اگرچہ طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا گیا ہے اور اس کی متنازعہ پالیسیوں کی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی ہےلیکن اب تک کسی بھی ملک نے طالبان کے خلاف جنگ کی حمایت نہیں کی ہے۔ امریکہ نےبھی 20سال تک طالبان سے لڑائی اور ان کے رہنماؤں پر دہشت گردی کی پابندیاں لگانے کے باوجود طالبان مخالف باغیوں کی حمایت سے گریز کیا ہے۔

برطانوی حکومت نے اکتوبر میں اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں مسلح تشدد کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے خواہاں گروہوں اور افراد کی سختی سے حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔

امریکہ کی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی میں انسداد دہشت گردی شعبے کے سابق سربراہ رابرٹ گرینیئر نے کہا ہے کہ ’’ طالبان کے خلاف کوئی بھی موثر شورش غیر ملکی حمایت اور ملک سے باہر محفوظ پناہ گاہوں پر انحصار کرے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ طالبان نے افغانستان میں افغان اور امریکی افواج سے لڑتے ہوئے دو دہائیوں تک پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں استعمال کیں۔‘‘

افغانستان میں کسی متحارب فریق کی حمایت نہ کرتے ہوئےمتعدد ممالک نے طالبان مخالف باغی گروپوں کے رہنماؤں اور دیگر ایسے افغان سیاست دانوں کی میزبانی کی ہے جو طالبان اقتدار کی مخالفت کرتے ہیں۔

طالبان کے خلاف عسکری اور سیاسی مہموں کی وکالت کرنے والے بعض سابق افغان فوجی عہدیداروں نے امریکہ میں حال ہی میں افغانستان کے یونائیٹڈ فرنٹ کا دفتر کھولا ہے اور اپنے دفتر کی عمارت پر سابق افغان جھنڈا لہرا دیا۔

ایک سابق افغان جنرل اور یونائیٹڈ فرنٹ کے رہنما سمیع سادات نے امریکی ایوان کی سماعت میں گزشتہ ماہ بتایا کہ ’’ہمیں آپ کی جانب سے کچھ مدد درکار ہے ۔ ہم دوبارہ شراکت داری کے لیے تیار ہیں اور ہم عظیم قربانی کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘

طالبان حکام نے اپنے مخالفین کی میزبانی کرنے والے ممالک سے عوامی سطح پر مایوسی کا اظہار کیا ہے جبکہ بیشتر طالبان رہنما اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے سفر کرنے سے قاصر ہیں۔

دہشت گردی کے بارے میں خدشات

اسلامک اسٹیٹ خراسان(آئی ایس ۔کے) اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے شدت پسند گروپ سے منسلک ہےاور طالبان کی حکمرانی کے لیے مبینہ طور پر سب سے زیادہ طاقتور خطرہ ہے۔ اس گروپ نے طالبان ارکان کو نشانہ بنانے کے علاوہ افغانستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف کچھ مہلک ترین حملے کیے ہیں۔

یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ایک ماہر اسفندیار میر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آئی ایس۔کے ایک متحرک تنظیم ثابت ہوئی ہے جو بیرون ملک حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ اپنی کارروائیوں میں شمالی اور مشرقی افغانستان میں اپنے حمایتی اڈوں میں اضافے کے ساتھ مزید خفیہ طور پر کام کر رہی ہے۔

افغانستان میں جوں جوں طالبان سے لڑنے والے گروہوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کچھ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے ایک اور دور کا امکان ہے جس سے علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے ممکنہ دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں۔

سی آئی اے کے سابق اہلکارگرینیئر نے کہا کہ افغانستان میں دوبارہ سر اٹھانے والا آئی ایس ۔ کے گروپ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں علاقائی حکومتوں کے لیے سکیورٹی خطرات کا باعث بنے گا۔

گرینئیر نے ایک ای میل میں بتایا: ’’ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ مغربی یورپ میں آئی ایس کی کارروائیاں مغرب پر حملہ کرنے کی خواہش کی بجائے ان فوجی کارروائیوں کا نتیجہ تھیں جو مغربی حکومتوں کی طرف سے عراق اور شام میں ان کے خلاف کی گئیں۔ القاعدہ کے برعکس، آئی ایس نے ہمیشہ اسلامی دنیا کے اندر حکومتوں کو ہدف بنانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔

امریکی حکومت نے سابق افغان فورسز کے ہزاروں ارکان کا افغانستان سے انخلا کرتے ہوئے انہیں دوبارہ آباد کیا ہے۔ ان میں سے کچھ طالبان کے خلاف جنگ کو تیز کرنے کے لیے امریکہ یا اس کے اتحادیوں سے کسی بھی نوعیت کی حمایت کے خواہاں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں