ریاض (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) سعودی عرب نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے بحری جہازوں پر حملوں کے ردعمل میں تحمل سے کام لے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے سعودی حکومت سے قریب دو ذرائع کے حوالے سے یہ خبر رپورٹ کی ہے۔
رائٹرز کے مطابق سعودی عرب اسرائیل۔ حماس تنازعے کو خطے میں پھیلنے سے روکنا چاہتا ہے۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے سات اکتوبر سے جاری تنازعے کے دوران بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر راکٹ برسائے ہیں جب کہ اسرائیل پر میزائیلوں اور ڈرونز سے حملے بھی کئے ہیں۔
بدھ کے روز حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے جنوبی اسرائیل میں کئی اسرائیلی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائیل داغے ہیں۔
بدھ کے ہی روز امریکی عہدہ داروں نے کہا تھا کہ میزائل شکن نظام سے مسلح امریکی جنگی بحری جہاز یو ایس ایس میسن نے یمن سے فائر کیے جانے والے ایک ڈرون کو مار گرایا ہے۔
یمن کے بیشترحصے پر قابض حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ کارروائیاں فلسطینی عوام کی حمایت میں کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ کارروائیاں اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اسرائیل غزہ میں حملے بند نہیں کر دیتا۔
ان کارروائیوں سے ان سمندری راستوں کے استحکام پر اثر پڑا ہے جہاں سے دنیا کے معدنی تیل کا بڑا حصہ گزرتا ہے۔
سعودی عرب معدنی تیل کا دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور حوثی باغیوں کی جانب سے ان حملوں پر اس کے خدشات ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاض ابھی تک اس صورت حال پر امریکہ کے ردعمل سے مطمئن ہے۔
رائٹرز کے مطابق ایک ذریعے نے دعویٰ کیا کہ اس سلسلے میں سعودی عرب نے امریکہ پر دباؤ ڈالا ہے، اور اس بارے میں بھی کہ غزہ میں جاری تنازعے کا حل کیوں ضروری ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس خبر پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔
جب کہ رائٹرز کی جانب سے سعودی حکومت کو بھیجی جانے والی ای میل پر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
سعودی عرب نے، جو اپنی معیشت کو معدنی تیل کے علاوہ بھی وسعت دینا چاہتا ہے، اس برس تہران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کئےہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب یمن میں حوثی باغیوں سے نو برس سے جاری جنگ سے بھی خود کو نکالنا چاہتا ہے۔
رائٹرز کے مطابق سعودی عرب یمن میں امن کے لیے جاری مرحلے کو تسلسل میں رکھنا چاہتا ہے، اور غزہ میں اسرائیل حماس تنازعے کی وجہ سے اسے خدشہ ہے کہ یہ معاملہ مشکل میں پڑ سکتا ہے۔
حوثی باغیوں اور سعودی عرب میں جاری مذاکرات کی وجہ سے یمن میں گزشتہ ایک برس سے معاملات استحکام کی جانب لوٹ رہے ہیں۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ حماس۔ اسرائیل جنگ کے دوران حوثیوں کے حملوں نے ایران سے وابستہ اس کیمپ میں ان کا پروفائل نمایاں کر دیا ہے جس میں حماس، لبنان کی حزب اللہ اور عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا ئیں بھی شامل ہیں۔
ایران سے تعلق رکھنے والے بعض سینئیر ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ حوثی باغیوں کی جانب سے جاری حملے واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے ہیں تاکہ وہ غزہ میں اسرائیل کا جاری آپریشن بند کروائے۔
ایران اور سعودی عرب، دونوں ہی غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ہیں۔
تہران میں مقیم ایک ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ حوثی نمائندوں نے نومبر کے مہینے میں ایرانی حکام کو ان حملوں کے منصوبے سے آگاہ کیا تھا۔بقول اس کے اس پر اتفاق کیا گیا تھا کہ یہ حملے اس حد تک رکھے جائیں گے کہ ان سے غزہ میں جاری تنازعے کو ختم کرنے میں مدد مل سکے۔
اس ذریعے کا کہنا ہے کہ اسے اس سلسلے میں بریفنگ بھی دی گئی تھی۔
رائٹرز نے ایران سے ہی تعلق رکھنے والے ایک مختلف ذریعے کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تہران بھی خطے میں کسی مکمل جنگ کا حامی نہیں ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس صورت حال میں اسے بھی جنگ میں شامل ہونا پڑ سکتا ہے۔
حوثی ترجمان نے اس رپورٹ پر ردعمل نہیں دیا جب کہ تہران حوثی باغیوں کے حملوں کے پیچھے ہونے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔
بحیرہ احمر پر حوثی حملوں پر امریکی ردعمل
امریکہ اور برطانیہ نے بحری جہازوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ان کے پیچھے ایران کی حمایت شامل ہے، جب کہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کے حامی اپنی مرضی سے فیصلے لیتے ہیں۔
اتوار کے روز امریکی محکمہ دفاع پنٹاگان نے بتایا تھا کہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں پانچ گھنٹے تک مسلح ڈرونز اور میزائیلوں سے جاری رہنے والے ایک حملے میں امریکہ کے ایک جنگی جہاز اور متعدد تجارتی بحری جہازوں کو ہدف بنایا تھا۔ جس میں کم از کم ایک میزائیل بہاماس کے پرچم والے مال بردار جہاز کو لگا تھا۔
محکمہ دفاع نے اپنی بریفنگ میں مزید بتایا تھا کہ حوثی فورسز نے اتوار کی صبح بحیرہ احمر میں متعدد تجارتی جہازوں پر حملہ کیا اور امریکی جہاز ’کارنی‘ نے بعض صورتوں میں ان کی مدد کی اور حوثیوں کے ان میزائیلوں کو مار گرایا تھا جو اس کی عمومی سمت میں آ رہے تھے۔
محکمہ دفاع کا کہنا تھا کہ امریکی جہاز کارنی نے جو میزائیل شکن نظام سے مسلح ہے، دو ڈرونز کو مار گرایا تھا۔
اس سلسلے میں پیر کے روز ایک بریفنگ کے دوران پنٹگان کی ترجمان سبرینا سنگھ نے کہا تھا کہ اگر امریکہ نے اس سلسلے میں ردعمل دینے کا فیصلہ کیا تو اس کا وقت اور ہدف امریکہ کی مرضی کے مطابق ہو گا۔