بھارتی ریاست منی پور میں پھر کشیدگی: چار مسلمانوں کی ہلاکت، سات سیکیورٹی اہلکار زخمی

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں چار مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد تشدد کی تازہ وارداتیں ہوئی ہیں جن میں کم از کم سات سیکورٹی اہلکار بھی زخمی ہو گئے ہیں جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال تین مئی سے جاری نسلی فساد میں پہلی بار مسلمانوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ مسلم آبادی میں اب تک امن و امان تھا۔ وہ فساد میں ملوث میتی اور کوکی برادری میں سے کسی کی بھی طرفداری نہیں کر رہے تھے۔ اس کے برعکس انھوں نے بے گھر ہو جانے والے بہت سے لوگوں کو پناہ دے رکھی تھی۔

میدانی علاقوں میں آباد ہندو آبادی ’میتی‘ اور پہاڑی علاقوں میں آباد مسیحی آبادی ’کوکی‘ کے درمیان نسلی فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو چکے ہیں۔ بے امنی کی وجہ سے ہزاروں افراد بے گھر بھی ہوئے ہیں جو عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔

آسام رائفلز کے ایک اہلکار نے امپھال میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیر کی شام منی پور کے تھوبل ضلع کے لیلانگ قصبے میں کچھ مسلح افراد جو کہ میتی ہندو تھے، پولیس کی وردی میں آئے۔ انھوں نے مقامی لوگوں سے جبراً وصولی شروع کر دی۔ مقامی باشندوں نے مخالفت کی جس پر ان میں ٹکراؤ ہوا اور انھوں نے فائرنگ کرکے چار افراد کو ہلاک کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حملے میں 10 افراد زخمی ہوئے جن میں تین کم عمر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ زخمیوں میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔ حملہ آوروں کی کارروائی کے جواب میں مقامی باشندوں نے ان کی تین گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا۔

پولیس کے مطابق منی پوری مسلمانوں کو ’میتی منگل‘ کہا جاتا ہے۔ وہ مجموعی آبادی کا آٹھ فی صد ہیں اور امپھال وادی کے قرب و جوار میں آباد ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حملہ آور اکثریتی میتی ہندو برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ تاحال ان میں سے کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔

اس واردات کے بعد انتظامیہ نے امپھال اور اس کے آس پاس کے متعدد علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان علاقوں سے 31 دسمبر کو کرفیو اٹھایا گیا تھا۔

امپھال ویسٹ کے ضلع مجسٹریٹ کے بیان کے مطابق ضلع میں لا اینڈ آرڈر کی تازہ صورتِ حال اور جان و مال کے نقصان کے پیش نظر احتیاطی اقدام کے طور پر 31 دسمبر کو کرفیو میں دی گئی ڈھیل واپس لی جا رہی ہے۔ امپھال ویسٹ ضلع میں مکمل طور پر کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ این بیرن سنگھ نے ایک ویڈیو پیغام میں عوام سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے بے قصور افراد کی ہلاکت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور کہا کہ قصور واروں کو پکڑنے کے لیے پولیس ٹیمیں روانہ کی گئی ہیں۔ انھوں نے لیلانگ کے عوام سے دست بستہ گزارش کی کہ وہ قیام امن میں ان کے ساتھ تعاون کریں۔

اس واقعہ کے بعد منگل کی صبح کو تینگنوپال ضلع کے مورے علاقے میں ایک تلاشی مہم پر جا رہے سیکیورٹی فورسز کے ایک دستے پر مسلح افراد نے گھات لگا کر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں کم از کم سات سیکورٹی جوان زخمی ہو گئے۔

کوکی برادری کے متعدد گروپوں کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بعد، کہ کمانڈوز نے دو غیر مسلح سویلین کو پکڑ لیا ہے سیکیورٹی فورسز اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

تینگنوپال کے پولیس سپرنٹنڈنٹ نے حملے میں ملوث کسی بھی شخص کی گرفتاری کی رپورٹ کی تردید کی ہے۔ زخمیوں میں سے پانچ اہلکاروں کو امپھال کے لیے ایئر لفٹ کیا گیا۔ جب کہ دو کا علاج مورے ہی میں چل رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق بعض زخمیوں کی حالت نازک ہے۔

پولیس کے مطابق زخمیوں میں سے چار کا تعلق منی پور کمانڈوز سے ہے جب کہ تین بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) سے تعلق رکھتے ہیں۔

منی پور فساد میں پہلی بار مسلمانوں کی ہلاکت پر بعض مسلم تنظیموں کی جانب سے اظہار تشویش کیا گیا ہے۔ ان کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں یہ معاملہ مزید طول نہ پکڑ لے۔

تقریباً دو درجن مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے وفاق ’آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ‘(اے آئی ایم ایم ایم) کے صدر ایڈووکیٹ فیروز احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ منی پور میں مسلمانوں کی ہلاکت افسوسناک ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا۔ انھوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ کہیں یہ معاملہ مزید سنگین نہ ہو جائے۔

ان کے مطابق اس ہلاکت میں بعض مسلح غیر سماجی عناصر ملوث ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ اسے اقلیت اور اکثریت کی لڑائی کی شکل میں بدلنا چاہتے ہوں کیوں کہ ابھی تک مسلمانوں کی آبادی اس تنازع سے دور تھی۔

یاد رہے کہ منی پور میں میتی برادری کے اس مطالبے کے بعد کہ اسے ’شیڈولڈ ٹرائب‘ یعنی ’درج فہرست قبائل‘ کا درجہ دیا جائے، کوکی برادری کی جانب سے اس کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

بعض رپورٹس کے مطابق ریزروڈ جنگلی علاقوں سے کوکی برادری کو نکالنے کے معاملے پر پہلے کشیدگی پیدا ہوئی اور اس کے بعد تین مئی کو فساد پھوٹ پڑا۔

میتی برادری ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور بیشتر امپھال وادی میں رہائش پذیر ہے۔ یہ برادری مجموعی آبادی کا 53 فیصد ہے۔ جب کہ کوکی مجموعی آبادی کا 40 فیصد ہیں اور بیشتر پہاڑی علاقوں میں آباد ہیں۔

واضح رہے کہ فساد شروع ہونے کے بعد سے ہی حزبِ اختلاف کی جانب سے منی پور تشدد پر وزیرِ اعظم سے بیان دینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن جب وزیرِ اعظم نے کوئی بیان نہیں دیا تو حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی۔

گزشتہ سال 8 اگست کو پارلیمانی اجلاس کے دوران اس تحریک پر بحث ہوئی اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کے درمیان زبانی ووٹوں سے تحریک کی شکست ہو گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں