جبری گمشدیاں: ریاست کو مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد (ڈیلی اردو) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے لاپتہ افراد اور جبری گمشدیوں کے کیس میں ریمارکس دیے کہ ہمیں حکومت پاکستان تحریری طور پر بتائے کہ مزید کسی کو غیر قانونی لاپتہ نہیں کیا جائے گا، اس ملک کو اپنوں نے ہی فریکچر کیا ہے، صرف عدالتی فیصلوں سے کچھ نہیں ہو گا، ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا۔
لاپتہ افراد کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی۔

درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے دلائل میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا آپ نے خود ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا فیصلے میں لکھ رکھا ہے، جس پر چیف جسٹس نے شعیب شاہین کو فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کا پیراگراف 53 پڑھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کا وہ حصہ بتائیں جو بلوچ دھرنے کے شرکا پر لاگو ہوتا ہے، حیران ہوں آپ فیض آباد دھرنا فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں۔

شعیب شاہین نے کہا میں ہمیشہ سے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتا رہا ہوں، اگر فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے، نہ ہمیں عدالت آنا پڑتا۔

شعیب شاہین نے عدالت میں مطیع اللہ جان کیس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کل تو آپ مطیع اللہ جان کا نام نہیں لے رہے تھے آج ان کا حوالہ دے رہے ہیں، اس وقت جس کی حکومت تھی کیا اس نے ذمہ داری لی؟ شعیب شاہین نے بتایا کہ اس وقت کی حکومت کی مداخلت سے ہی مطیع اللہ پہلے دن رہا ہو گئے، مطیع اللہ پہلے دن رہا ہوگئے جبکہ عمران ریاض 4 ماہ لاپتہ رہے۔

چیف جسٹس نے کہا نہیں ایسا بالکل نہیں ہوا تھا، یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے آپ کی، مطیع اللہ جان واقعے کی ویڈیو ریکارڈ ہو گئی تھی جس وجہ سے انہیں رہا کرنا پڑا، مطیع اللہ جان کیس ایک ریکارڈڈ دستاویزی کیس تھا۔

شعیب شاہین نے کہا عمران ریاض والے واقعے کی بھی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج موجود تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ رک جائیں اب مجھے بات کرنے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا اگر اس وقت آپ لوگ سامنا کرتے تو آج والے واقعات نہ ہوتے، اگر مطیع اللہ جان کی رہائی میں آپ کی کوئی مداخلت تھی تو ریکارڈ پر لائیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا عمران ریاض کو عدالت بلائے تو وہ تیار ہیں، عدالت پروٹیکشن دے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیا ہم کسی کیلئے ریڈ کارپٹ بچھائیں گے؟ اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائے، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دیں گے؟عدالت کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شعیب شاہین سے پوچھا شیخ رشید نے آپ کو کیا کہا؟ دھرنا کیس اور الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آسکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں آ سکتے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے جو اپنے لیے بات نہیں کر سکتے تو وہ کسی کیلئے کیا بات کریں گے، پریس کانفرنس کر کے بتا کیوں نہیں دیتے کہ کس نے اٹھایا تھا؟
آمنہ مسعود جنجوعہ نے روسٹرم پر آکر کہا میرے شوہر2005 میں جبری گمشدہ ہوئے تھے، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نوٹس لیا تھا، اس وقت پرویز مشرف کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس نے آمنہ مسعود جنجوعہ سے استفسار کیا آپ کے شوہر کو کس وجہ سے اٹھایا گیا تھا؟ آپ کے کاروباری شوہر کا حکومت یا ریاست سے کیا تعلق تھا؟ ریاست کس وجہ سے آپ کے شوہر کو اٹھائے گی؟ کیا آپ کے شوہر مجاہدین کے حامی تھے یا کسی تنظیم کے رکن تھے؟
آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا لاپتہ افراد کمیشن نے میرے شوہر کو 2013 میں مردہ قرار دے دیا تھا، میرے شوہر دوست سے ملنے پشاور کیلئے نکلے لیکن پہنچے نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو کس پر شک ہے؟ غیر ریاستی عناصر اور ایجنسیاں بھی ہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ سال 2007 میں معلوم ہوا کہ میرے شوہر آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں، مشرف دور میں لاپتہ افراد کی شرح سب سے زیادہ تھی، موجودہ دور میں بھی لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں، کوئی تو ریاست سے کہے کہ لاپتہ کرنے کی پالیسی چھوڑ دے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اٹارنی جنرل کیا آپ حکومت کی طرف کہہ سکتے ہیں کسی کو غیر قانونی نہیں اٹھایا جائے گا، جس پر انہوں نے کہا جی میں بالکل یہ کہہ سکتا ہوں۔

فاضل جج نے پوچھا کون سی وزارت ذمہ دار ہو گی جس سے جواب مانگیں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ متعلقہ وزارت ہو سکتی ہے، ان کا الزام مشرف (پرویز مشرف) پر ہے تو متعلقہ وزارت دفاع کی بنتی ہے، کیا آپ حلفیہ بیان دیں گے کہ آج سے ریاست کسی کو لاپتہ نہیں کرےگی؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا میں بیان دینے کو تیار ہوں کیونکہ قانون یہی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہ بھاری ذمہ داری ہو گی، اگر آپ کے بیان کے بعد کل کوئی لاپتہ ہوا تواس کے نتائج ہوں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا ہمیں کسی سیکشن افسر کا بیان نہیں چاہیے، ہمیں حکومت پاکستان تحریری طور پر بتائے کہ مزید کسی کو غیر قانونی لاپتہ نہیں کیا جائے گا، اس ملک کو اپنوں نے ہی فریکچر کیا ہے، صرف عدالتی فیصلوں سے کچھ نہیں ہو گا، ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سے پوچھا کہ آج کل لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں یا نہیں؟ آپ کے پاس کیسز آرہے ہیں؟، جس پر انہوں نے بتایا کہ جی کمیشن کے پاس کیسز آرہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت 9 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کیس میں وفاق نے اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی، لاپتہ افراد کیس میں وفاق کی اپیلیں واپس لینے کی بنیاد پرخارج کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں