اسلام آباد میں افغان طالبان کی پاکستانی حکام سے ملاقاتیں

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) کشیدگی کے ماحول میں افغان طالبان کے رہنما پاکستانی حکام سے مذاکرات کر رہے ہیں اور بات چیت میں سرحدی سلامتی سمیت دیگر امور بھی شامل ہیں۔ افغان طالبان کا وفد دو روزہ دورے پر پاکستان میں ہے۔

پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بدھ کے روز افغانستان کی طالبان انتظامیہ پر زور دیا کہ اگر اسے دونوں ملکوں کے تعلقات کی صلاحیت کو پوری طرح سے ثمر آور بنانا ہے، تو اسے دو طرفہ تعلقات میں اہم مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

انہوں نے اسلام آباد میں بدھ کے روز قندھار کے گورنر اور افغانستان میں طالبان انتظامیہ میں ملٹری انٹیلیجنس اور حکمت عملی کے نائب سربراہ حاجی ملا شیرین سے ملاقات کے دوران یہ باتیں کہیں۔

بدھ کو قندھار کے گورنر حاجی ملا شیرین ایک وفد کے ساتھ اسلام آباد پہنچے اور انہوں نے پاکستان افغانستان کی مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) میں افغان فریق کی قیادت کی۔ پاکستانی وفد کی قیادت خصوصی ایلچی برائے افغانستان سفیر آصف درانی نے کی۔

حالیہ مہینوں میں طالبان کی کسی سینیئر شخصیت کی جانب سے اسلام آباد کا یہ پہلا دورہ ہے۔ ملا شیرین کے دورے کو طالبان کے اندر ان کے اعلیٰ مقام اور اعلیٰ قیادت کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان نے طالبان وفد سے کیا کہا؟

اطلاعات کے مطابق بدھ کے روز فریقین کے درمیان بات چیت تقریبا تین گھنٹے تک جاری رہی، جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سرحد کی سکیورٹی، دستاویزات نہ رکھنے والے افغانوں کی ملک بدری سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جیلانی نے گفتگو کے دوران افغانستان کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور رابطوں کو بڑھانے کے لیے تمام متنازعہ مسائل کو حل کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

جیلانی نے ملاقات کے بعد سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک ٹویٹ میں کہا انہوں نے شیرین کے ساتھ باہمی تشویش کے اہم مسائل بشمول ”امن و سلامتی” کے ساتھ ہی دونوں جانب کی عوام کے رابطوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے کہا، ”دونوں فریقوں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کی مصروفیات اور بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔”

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق دورہ کرنے والے طالبان رہنما نے چار دہائیوں سے لاکھوں افغانوں کی فراخدلی سے میزبانی کرنے پر پاکستان کی تعریف کی اور دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی رابطے اور بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

افغان طالبان نے مذاکرات پر کیا کہا؟

افغان طالبان کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جے سی سی کا اجلاس، جو باری باری سے کابل اور اسلام آباد میں ہوتا ہے، کے شرکاء تمام ممکنہ تنازعات کے حل کے حوالے سے بات چیت اور فیصلے کریں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریق نے عوامی رابطوں کو فروغ دینے کے لیے سرحد پار نقل و حرکت کو آسان بنانے کے طریقہ کار پربھی تبادلہ خیال کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ”اس میٹنگ کے دوران پچھلی ملاقات کے فالو اپ کے طور پر، شرکاء ڈیورنڈ لائن کے ساتھ ہی دیگر ممکنہ تنازعات کے حل اور دونوں اطراف کے لوگوں کے لیے ضروری سہولیات کے قیام سے متعلق بات چیت کرنے کے ساتھ ہی، ضروری فیصلے کریں گے۔”

پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی

حالیہ مہینوں میں کابل کی جانب سے ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں پر لگام لگانے میں ناکامی کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی رہی ہے اور حالیہ مہینوں میں اس گروپ نے پاکستان کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان اس حوالے سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت اس بات کا تو بار بار اصرار کرتی رہی ہے وہ افغان سرزمین کو پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، تاہم اسلام آبا دکا کہنا ہے کہ اس نے کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔

پاکستان نے واضح کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات کا مستقبل ٹی ٹی پی کے خلاف کابل کی کارروائی پر منحصر ہے۔

افغان طالبان کے اس وفد کے دورے سے پہلے قائم مقام افغان وزیر دفاع ملا یعقوب نے افغانستان میں دہشت گردی کے لیے ”غیر ملکی

طاقتوں”کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور دعویٰ کیا کہ افغانستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں تاجک اور پاکستانی شہری ملوث ہیں۔

اس تناظر میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ملا شیرین کا یہ دورہ دو طرفہ تعلقات میں کسی پیش رفت کا ضامن ہو گا یا نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں