صدر بائیڈن غزہ میں جنگ بندی کا اشارہ نہیں دے رہے، وائٹ ہاؤس

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) امریکہ کی حکومت غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر ملے جلے اشارے دیتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکی حکومت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کو مسترد کر رہی ہے اور ساتھ ہی صدر بائیڈن غزہ میں جنگ بندی کے مطالبات پر امریکیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے انتظامیہ کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت جنگ بندی صرف حماس کو فائدہ دے گی۔

اسرائیل کا اصرار ہے کہ اس کی فوجی مہم صرف حماس کے خاتمے کے بعد ہی رکے گی۔ امریکہ حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔

جان کربی نے منگل کو وائٹ ہاؤس کی نیوز بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “ہم انسانی بنیادوں پر وقفوں کی حمایت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن فی الحال عام جنگ بندی کی نہیں۔”

انہوں نے کہا کہ صدر بالکل بھی کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں دے رہے۔

پیر کو الیکشن مہم کے دوران ایک شہری کی جانب سے خلل ڈال کر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر زور دینے کے جواب میں بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ خاموشی سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور وہ غزہ میں ان (اسرائیل) کی ( موجودگی) کم کرنے اور نمایاں طور پر غزہ سے باہر نکالنے کے لیے مصروف ہیں۔

جنوبی کیرولائنا میں منعقدہ پروگرام کے دوران ’فوری جنگ بندی‘ کا مطالبہ کرنے والے گروپ کو مخاطب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا تھا کہ میں جذبات کو سمجھتا ہوں۔

یہ واقعہ ان عوامی مظاہروں میں سے ایک ہے جو رواں برس نومبر 2024 میں ہونے والے امریکہ کے صدارتی انتخابات سے قبل ظاہر کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطی کا تنازع کس طرح رائے دہندگان کو تقسیم کر رہا ہے۔

اس معاملے پر نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز کی پروفیسر وینڈی پرل مین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کا بیان امریکی عوام کی توہین ہے جو امریکی قیادت سے جنگ روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے اسرائیل کے لیے امریکی مالی، فوجی اور سفارتی حمایت پر زور دیتے ہوئے وی او اے کو بتایا کہ جب بائیڈن انتظامیہ کے اسرائیل پر کیے گئے اقدامات اتنی بلند آواز میں بولتے ہیں، تو پردے کے پیچھے سرگوشیوں کے بارے میں بات کرنا شرم ناک لگتا ہے۔

پرل مین ان 1350 سے زائد امریکی سیاسیات کے ماہرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں بائیڈن اور دیگر امریکی سیاسی رہنماؤں سے غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔

شمالی غزہ میں اقوامِ متحدہ کا جائزہ مشن

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے غزہ جنگ پر قابو پانے کے اپنے تازہ ترین سفارتی مشن کے دوران کہا کہ بے گھر ہوئے فلسطینیوں کو حالات کی اجازت کے ساتھ ہی اپنے گھروں میں واپس آنے کے قابل ہونا چاہیے۔

بلنکن مشرقِ وسطیٰ کا جنگ شروع ہونے کے بعد چوتھا دورہ کر رہیں جہاں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جنگ سے تباہی کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اقوامِ متحدہ کے مشن کو اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے۔

میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی شمالی غزہ میں مہم کی شدت میں کمی آ رہی ہے۔اسرائیل ڈیفنس فورسز وہاں اپنی افواج کو کم کر رہی ہے۔

ان کے بقول اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے ایک مشن کو شمالی غزہ کا جائزہ لینے کے لیے جانے کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔

منگل کو تل ابیب میں نیوز کانفرنس کے دوران اینٹنی بلنکن نے کہا کہ یہ مشن اس بات کا تعین کرے گا کہ بے گھر فلسطینیوں کو شمال میں اپنے گھروں کو بحفاظت واپس جانے کی اجازت دینے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔

بلنکن نے اسرائیلی رہنماؤں پر بھی زور دیا کہ فلسطینیوں کا مزید نقصان نہ ہونے کے اقدامات کیے جائیں۔

بین الاقوامی عدالت انصاف کی اسرائیل پر الزامات کی سماعت

رواں ہفتے کے آخر میں بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کردہ ایک مقدمے کی سماعت کرے گی جس میں اسرائیل پر غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا الزام لگایا گیا تھا اور اس کی فوجی مہم کو ہنگامی طور پر معطل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بلنکن کے مطابق امریکہ کا خیال ہے کہ یہ مقدمہ بے بنیاد ہے۔ یہ حماس کے عسکریت پسندوں اور دیگر ایرانی پراکسیوں سمیت حزب اللہ اور حوثیوں کے خطرات سے لڑنے کی اسرائیل کی کوششوں سے توجہ ہٹاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اسرائیل اس بات کو یقینی بنانے کے اپنے جائز مقاصد کو حاصل کرے کہ سات اکتوبر کی طرح دوبارہ کبھی نہ ہو۔

اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اس الزام کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت کا معاملہ

اقوامِ متحدہ میں فلسطینی ایلچی ریاض منصور نے منگل کو کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اس سال اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کر سکتی ہے۔

سفیر ریاض منصور نے اقوامِ متحدہ میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ امن میں سرمایہ کاری اور دو ریاستی حل کو بچانے کے لیے سرمایہ کاری ہے۔

نومبر 2012 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کی حیثیت کو ایک غیر رکن مبصر ریاست میں اپ گریڈ کرنے کے لیے ووٹنگ کی تھی جس سے اس کے ایلچی کو مباحثوں اور اقوامِ متحدہ کی تنظیموں میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ تاہم انہیں ووٹ کے اجازت نہیں تھی۔

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو 1974 میں مبصر ادارے کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

ریاض منصور نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی، عرب ریاستوں کی حمایت کے ساتھ، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جانے کے لیے حمایت کو متحرک کرنا شروع کر دے گی، جس کے پاس رکنیت کی کلید ہے۔

حتمی فیصلے کے لیے جنرل اسمبلی میں جانے سے پہلے فلسطینی اتھارٹی کو ایک درخواست کی حمایت کرنا ہوگی۔

اس کا مطلب ہے کہ کونسل کے کم از کم نو ارکان کو اس اقدام کے حق میں ووٹ دینا چاہیے اور مستقل پانچ ارکان میں سے کوئی بھی اسے ویٹو نہ کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں