عراق، شام اور پاکستان کی سرحدوں میں میزائل حملے، طاقت کا اظہار یا ایران کی دفاعی حکمتِ عملی

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) گذشتہ چند دنوں میں ایران کی جانب سے عراق، شام اور پاکستان میں مزائل حملوں میں جہاں بین الاقوامی ردعمل آیا ہے وہاں ان حملے کے اہداف کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

عراق اور پاکستان نے اپنی سرحدوں کے اندر ہونے والے ان حملوں کی مذمت کی لیکن پاکستان نے نہ صرف مذمت کی بلکہ اس حملے کے ردعمل میں ایران میں حملہ کر دیا۔ یہ ایران عراق جنگ کے بعد پہلا موقعہ ہے جب کسی دوسرے ملک نے ایران کے اندر میزائل یا ڈرون حملہ کیا۔

ایران کا مغربی ہمسایہ ملک عراق اس سے قبل بھی ایران اور ترکی کی جانب سے اس طرح کے حملوں کی زد میں رہا ہے۔ عراق نے کردستان کے علاقے اربیل پر میزائل حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو عالمی فورمز میں اٹھانے کی دھمکی دی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایران اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ کشیدگی میں اضافے سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ یورپی یونین نے ’مشرق وسطی‘ اور اس سے آگے کے علاقوں میں تشدد کو تشویشناک قرار دیا اور امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکہ ایران اور پاکستان کے درمیان فضائی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت پر ’قریبی نگرانی‘ کر رہا ہے اور ’کوئی خطے میں فوجی تصادم نہیں دیکھنا چاہتا۔‘

جان کربی نے زور دیا کہ ’ان (پاکستان) پر پہلے ایران نے حملہ کیا جو (ایران) کی طرف سے ایک اور بے رحمانہ حملہ تھا اور یہ ایران کے عدل استحقام پیدا کرنے والے عمل کی ایک اور مثال ہے۔‘

لیکن اس دوران سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ان تینوں ممالک پر ایران کے میزائل حملوں کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایران کے لیے اس کارروائی سے کیا ممکنہ کامیابی ہو سکتی ہے؟ اور کیا ان حملوں کا منصوبہ کرنے والے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر سکے؟

جو چیز ان حملوں کو مزید مبہم بناتی ہے وہ پاکستان پر کیا جانے والا حملہ ہے۔ اس حملے پر نہ صرف پاکستان نے سخت احتجاج کیا بلکہ اس کی فوج نے ایران کی سرزمین پر حملہ کر دیا۔

اس سلسلے میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے شائع ہونے والے ایک بیان میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ کہا گیا ہے ’پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے‘۔ آج کی کارروائی کا واحد مقصد پاکستان کی سلامتی اور قومی مفادات کو محفوظ بنانا تھا جو بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

ساتھ ہی، پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان میں ایک بار پھر کہا گیا ہے کہ پاکستان ’بین الاقوامی قانون کے دائرے میں اپنے جائز حقوق کا استعمال کرتے ہوئے، اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو کسی بھی بہانے یا شرط کے تحت چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘

عراق، شام اور پاکستان پر ایران کے حملوں میں فرق
دو اہم نکات عراق اور شام پر ایران کے حملوں کو پاکستان پر کیے جانے حملے سے مختلف بناتے ہیں۔ ایک یہ کہ عراق اور شام پر پہلے بھی اسی طرح کے حملے ہو چکے ہیں۔ لیکن پاکستانی سرزمین پر ایسے حملے کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔

یقیناً ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں سرحدی تنازعات اور مارٹر فائر کا تبادلہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ تاہم پاکستان پر میزائل اور ڈرون حملے اور اس کے ساتھ مسلح افواج کے بیان کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

ایران کے وزیر دفاع اور مسلح افواج کی حمایت نے حالیہ میزائل حملوں اور پاکستان پر حملے کے بعد کہا ’ہم اپنے قومی مفادات اور عوام کے دفاع میں کوئی پابندی نہیں لگاتے اور ہم یہ کام اختیار کے ساتھ کرتے ہیں۔‘

محمدرضا اشتیانی نے کہا ’ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ کوئی ہماری سرحدوں میں فساد کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ کسی بھی علاقے سے اسلامی جمہوریہ کو دھمکیاں دیتے ہیں تو ہم اس کا ردعمل ظاہر کریں گے۔‘

یہ حملہ مزید سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے حکام ایک دوسرے کو ’بھائی اور دوست‘ کہتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ حملہ ایسے حالات میں ہوا ہے جب دونوں ممالک کے حکام حملے سے قبل ایک دوسرے سے ملے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مشقیں بھی کی جا رہی تھیں۔

ایران کا میزائل ڈاکٹرین

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران کا اربیل اور شام میں اہداف پر میزائل حملہ کم از کم ملکی اور علاقائی سطح پر پیغام دینے کے لیے کیا گیا۔

اس حقیقت کے باوجود کہ ان دونوں ممالک پر ایسے حملوں کی مثال نہیں ملتی ہو سکتا ہے کہ یہ ایران کی میزائلوں کی طاقت دکھانے کی کوشش ہو۔ پاسداران انقلاب نے کہا ہے کہ عراقی کردستان اور شمالی شام پر میزائل حملے ایران کے تین مقامات سے کیے گئے تھے۔

شاید شمال مغربی شام میں ادلب پر حملہ ان حملوں میں اربیل پر حملے سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ایران کح سرحد سے 1400 کلومیٹر دور حملہ کر کے ایک ایران کی مزائل لی رینج کے متعلق واضح پیغام دیا گیا۔

ایران عراق جنگ کے دوران اور اسلامی جمہوریہ ایران پر ہتھیاروں کی پابندی کے نفاذ کے بعد سے ایران کو اپنی فضائی حدود کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ریڈار سسٹم، جنگی طیاروں سمیت دیگر ہتھیاروں کے میدان میں مسائل کا سامنا رہا ہے جبکہ خطے کے متعدد ممالک کے کو ایسے ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہے۔

ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے شاید ’میزائل ڈاکٹرین‘ کے ساتھ ساتھ ایران کی طرف سے حالیہ برسوں میں جاسوسی اور جنگی ڈرون کی تیاری ملک کے فوجی منصوبوں کا مرکز رہا ہے۔

اس سال ستمبر کے آخر میں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا ’اسلامی جمہوریہ ایران کی میزائل اور ڈرون صلاحیتیں ایک واضح فوجی نظریے کے دائرے میں ہیں جو ڈیٹرنس اور قومی سلامتی کو برقرار رکھنا پر مبنی ہے۔‘

یہ ایک ایسا نکتہ جس پر ایران کے فوجی حکام نے کئی بار زور دیا ہے اور بین الاقوامی تنازعات بشمول JCPOA جوہری مذاکرات کے دوران ایران کی میزائل صلاحیتوں اور پروگراموں پر بات چیت نہ کرنے پر اصرار کیا ہے۔

اس تناظر میں شاید عراق اور شام پر حملے ایران کے لیے بین الاقوامی نتائج کے علاوہ اس قابلیت اور ڈاکٹریٹ کو ظاہر کرنے میں اہم ہے اور دوسری طرف اپنے ملکی سطح پر ایرانی حکمرانوں اور ان کے کے لیے اہم ہے جو ’شدید انتقام‘ کی بات کرتے ہیں۔

ایک نئی جدت

قابل اعتراض بات یہ ہے کہ ان حالات میں کہ ایران میں ان حملوں کا منصوبہ بنانے والوں کو کم از کم ان حملوں کی تشہیر کا موقع مل سکتا تھا، پاکستان پر حملہ کیوں کیا گیا؟

کیا یہ حملہ ایران کے لیے نئی کشیدگی اور دوسرے لفظوں میں نئی مصیبت کا باعث نہیں بنے گا، ایران کی مشرقی سرحدوں میں ایسی کشیدگی کا اسلامی جمہوریہ کے حکام کو کیا فائدہ ہوگا؟

عراقی سرزمین پر ایران کے سابقہ حملوں پر غور کیا جائے تو اس ملک سے زبانی اور سفارتی ردعمل کے سوا کچھ نہیں متوقع تھا، جو عملی طور پر بھی ہوا۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کی رد عمل کی دینے کی حالت نہیں ہے۔

خواہ پاکستان پر حملے کو سوشل نیٹ ورکس میں پیش کی جانے والی سازشی تھیوریوں کے دائرہ کار میں ’مربوط‘ سے تعبیر کیا گیا، لیکن اس حملے پر ایران کو نہ صرف پاکستان کی طرف سے سخت زبانی اور سفارتی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سیستان و بلوچستان میں سراوان میں ایک ہدف پر اس کے جوابی حملے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

آسان الفاظ میں پاکستان پر حملے اور اس کے جوابی اقدامات نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئی جدت پیدا کر دی ہے۔ ایک ایسا عمل جو نظریاتی طور پر خطے کے دیگر ممالک کے ہاتھ اسی طرح کی کارروائی کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے جبکہ عملی طور پر اس سے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ایران کے تعامل کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

عام طور پر یہ حملے ایران کے خطے اور بین الاقوامی سطح پر کردار پر اثر ڈالین گے جسے مغرب ’غیر مستحکم‘ کردار قرار دیتا ہے۔

اس سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستان پر حملے کا فیصلہ اعلیٰ عسکری اور حکومتی سطح پر کیا گیا تھا اور کیا یہ مربوط تھا یا نہیں؟

کیا ایران کی وزارت خارجہ اس معاملے سے باخبر تھی یا اسے پہلے کی طرح فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا گیا؟

اس سلسلے میں یہ بات دلچسپ ہے کہ ایران کے بہت سے اعلیٰ حکام نے پاکستان پر حملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور سرکاری ذرائع ابلاغ جیسے ارنا نیوز ایجنسی، صدا اور سما نیوز ایجنسی، آئی آر جی سی کے قریبی میڈیا نے پاکستان کے حملے پر بات نہیں کی۔

اس طرح کی کارروائی اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے زیادہ پریشانی کا سبب نہیں بن سکتی، لیکن اس حملے کے نتائج اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے مختلف جہتوں میں ’بھاری قیمت‘ ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں