افغانستان میں خواتین کیخلاف کریک ڈاؤن جاری، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے خلاف طالبان اپنی سختیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ مرد و خواتین پر اسلامی شریعت کو مکمل طور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

پیر کے روز شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور حال یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون غیر شادی شدہ ہو، یا پھر ان کے ساتھ کوئی مرد سرپرست نہ ہو، تو کام، سفر اور صحت کی دیکھ بھال تک ان کی رسائی کو پوری طرح سے محدود کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے اکتوبر سے دسمبر کے دوران کی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان حکمرانوں کی جانب سے افغان خواتین کی عوامی زندگی تک رسائی کے خلاف کریک ڈاؤن پوری طرح سے جاری ہے۔

افغان خواتین پر مزید پابندیاں

افغانستان میں مرد کی سرپرستی سے متعلق کوئی باضابطہ قوانین موجود نہیں ہیں، تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ خواتین کسی ایسے مرد کے بغیر باہر گھوم پھر نہیں سکتیں اور نہ ہی ایک خاص فاصلے تک سفر کر سکتی ہیں، جس سے ان کا خونی رشتہ نہ ہو یا پھر وہ شادی کے ذریعے رشتے میں نہ ہوں۔

تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں صرف اس لیے ان تین خواتین ہیلتھ ورکرز کو حراست میں لے لیا گیا تھا، کیونکہ وہ مرد سرپرست کے بغیر کام پر جا رہی تھیں۔

پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان خواتین کو صرف اس شرط پر رہا کیا گیا، جب ان کے اہل خانہ نے تحریری طور پر اس ضمانت پر دستخط کیے کہ خواتین اس فعل کو دوبارہ نہیں دہرائیں گی۔

جنوب مشرقی افغانستان کے صوبہ پکتیا میں دینی امور کی وزارت ‘نہی عن المنکر’ نے گزشتہ دسمبر سے مرد سرپرستوں کے بغیر خواتین کی صحت کے مراکز تک بھی رسائی کو روک دیا ہے۔

خواتین پر تعلیمی پابندیاں

سن 2021 میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا، تو اس کے فوری بعد ہی طالبان نے خواتین کو نشانہ بنانے کے لیے کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں ہی، طالبان حکومت نے کہا تھا کہ سن 2022 میں خواتین کے لیے جو ڈریس کوڈ نافذ کیا گیا تھا، اس پر عمل نہ کرنے والی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کے تحت پہلی بار ایک خاتون کو ”شرعی حجاب” نہ پہننے پر گرفتار کیا گیا۔

طالبان نے افغان لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے سکول جانے سے بھی روک دیا اور خواتین کو مقامی ملازمتوں اور غیر سرکاری تنظیموں میں شامل ہونے سے بھی منع کر دیا ہے۔ انہوں نے بیوٹی سیلون بند کرنے کے ساتھ ہی خواتین کے جم اور پارکوں میں جانے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ پر طالبان کا ردعمل

خواتین کے حقوق کے خلاف سخت اقدامات کی وجہ سے بہت سے ممالک نے طالبان کی ان حرکتوں پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور دنیا کے بیشتر ممالک نے ان کی حکومت کو ابھی تک تسلیم بھی نہیں کیا ہے۔

افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ پر اپنے رد عمل میں کہا کہ یہ رپورٹ زیادہ تر غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے مشن پر اسلامی قانون یا شریعت کو نظر انداز یا پھر اس پر تنقید کرنے کا الزام بھی لگایا۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت کے پاس اقتدار ہے اور اس کو چاہیے کہ وہ، ”مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں طور پر شریعت کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کرے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں