اردن میں امریکی فوجی اڈے پر حملے کے جواب کا فیصلہ کر لیا ہے، صدر بائیڈن

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) صدر بائیڈن نے جنہیں اس انتخابی سال کے دوران بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے، کہا ہے کہ ان کے نزدیک ایران ان لوگوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے جنہوں نے اردن میں واقع امریکی فوجی اڈے پر ہلاکت خیز حملہ کیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اکتوبر میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اس خطے میں امریکی فورسز پر پہلے ہلاکت خیز حملے کے ردعمل میں متعدد کارروائیاں کیے جانے کا امکان ہے، لیکن اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں گئیں۔

بائیڈن نے، جن کی عمر 81 سال ہے، جو اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے کے لیے فلوریڈا میں تھے، اس سے قبل اس حملے کے لیے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو مورد الزام ٹہرا چکے ہیں، جس سے علاقائی تنازع کے پھیلنے کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں جب بائیڈن سے نامہ نگاروں نے یہ پوچھا کہ کیا انہوں نے اس حملے کا جواب دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ان کا جواب تھا۔ ہاں۔

لیکن انہوں نے اس بارے میں مزید کچھ نہیں بتایا کہ وہ کیا اقدامات کریں گے۔

جب ان سے اس خدشے کے بارے میں پوچھا گیا کہ آیا ایران کے خلاف کارروائی بڑے پیمانے پر آگ بھڑکا سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں ایک پھیلی ہوئی جنگ کی ضرورت ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔

ایران نے ڈرون حملے سے کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھی تنازع کو پھیلانا نہیں چاہتا۔

حملے کے جواب میں متعدد کارروائیاں متوقع ہیں

ریپبلکنز نے ڈیموکریٹک حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اتوار کو اردن میں شام کی سرحد کے قریب واقع ایک امریکی فوجی تنصیب پر ڈرون حملے کے لیے ایران کو سزا دے۔

نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے صدر کے طیارے ایئر فورس ون پر سوار صحافیوں سے کہا کہ یہ بہت ممکن ہے کہ آپ جو کچھ یہاں دیکھیں گے وہ ایک سلسلے کی کڑی ہو، اور یہ صرف ایک کارروائی نہ ہو بلکہ ممکنہ طور پر متعدد کارروائیاں ہوں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے پیر کے روز کہا تھاکہ امریکہ کا ردعمل کثیر سطحی ہو سکتا ہے، مراحل میں ہو سکتا ہے، اور لمبے عرصے تک چل سکتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا اردن میں امریکی فوجی تنصیب پر حملے کا ذمہ دار ایران ہے، صدر بائیڈن نے جواب میں کہا کہ میں اسے ذمہ دار ٹہراتا ہوں ۔ اس لیے کہ وہ ان لوگوں کو ہتھیار دے رہا ہے جنہوں نے یہ حملہ کیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایران سے براہ راست رابطہ ہوا ہے تو بائیڈن نے کہ ہم اس بارے میں بات چیت کریں گے۔

امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی مہم زور شور سے جاری ہے جس سے بائیڈن پر سیاسی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے بتایا ہے کہ امریکی صدر اردن کے ڈورن حملے میں ہلاک ہونے والے تین امریکی فوجیوں کے جسد خاکی ملک میں لانے جانے کے موقع پر جمعہ کو ایک ایئربیس پر ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کریں گے۔

کریملن نے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے۔

تہران کے قریبی ساتھی روس نے منگل کو مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ماسکو میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہمارے خیال میں تناؤ کی مجموعی سطح انتہائی تشویشناک ہے اور اب تناؤ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا وقت ہے۔

تہران نے کہا ہے کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان امریکی الزامات کی بھی تردید کی ہے کہ وہ عراق اور شام کے ان عسکریت پسندوں کی حمایت کرتا ہےجن کا حملے میں ہاتھ ہے۔

چین نے مشرق وسطیٰ میں ’’جوابی کارروائی‘‘ کے خلاف بھی خبردار کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں