یمن کے حوثی جنگجو کتنے طاقتور ہیں اور ان سے مذاکرات کرنا اِتنا مشکل کیوں ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) حوثی جنگجوؤں کے پاس سب سے طاقتور افواج میں سے ایک ہے جس کی موجودگی سے دنیا اکثر چونک جاتی ہے۔ وہ ہر اس بین الاقوامی بحری جہاز پر میزائل داغ دیتے ہیں جس کا انھیں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل سے تعلق نظر آتا ہے، یا اگر نہیں بھی نظر آتا پھر بھی۔

انھوں نے عالمی تجارت پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ کئی بحری جہازوں کو ہزاروں میل دور تک اپنا رُخ موڑنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اُن کے اڈوں پر فضائی کارروائیاں بظاہر انھیں روک نہیں سکیں۔ بلکہ انھوں نے امریکہ اور برطانیہ سے جڑے اہداف کے خلاف جوابی کارروائیوں کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

تو یہ حوثی کون ہیں، وہ اتنے طاقتور کیسے ہوئے اور اب بحیرۂ احمر میں آگے کیا ہو گا؟

حوثی کون ہیں؟

حوثی یمن کے شمال مغربی پہاڑی علاقے کا ایک اقلیتی گروہ ہے۔ ان کا نام تحریک کے بانی حسین الحوثی سے انھیں ملا۔

سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے یمن کے طاقتور حکمرانوں کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ جب یمن کی حکومت عرب سپرنگ کے مظاہروں کی بدولت اقتدار سے ہٹی تو حوثیوں نے دارالحکومت صنعا کی طرف پیش قدمی کی اور 2014 پر اقتدار پر اپنا قبضہ جما لیا۔

اقتدار سے بے دخل کیے گئے سابق صدر صالح نے اپنے وفادار ریپبلیکن گارڈ کے دستے ان کے حوالے کر دیے جس کی بدولت انھوں نے یمن کی 80 فیصد آبادی کا کنٹرول سنبھال لیا۔ حوثیوں نے اس کے بعد انھیں قتل کر دیا۔

جب سے سب سے غریب عرب ممالک میں سے ایک یمن میں حوثیوں نے اقتدار سنبھالا ہے یہاں خانہ جنگی سے کافی نقصان ہوا ہے۔

قریب ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ لاکھوں لوگ خوراک کے لیے امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

سات سال تک حوثیوں نے اپنے خلاف سعودی سربراہی میں فضائی کارروائیوں کے مقابلہ کیا۔ سعودی عرب کو خدشہ تھا کہ حوثیوں کے اس کے حریف ایران سے قریبی تعلقات ہیں۔

ورجینیا میں قائم تنظیم ’نوانتی‘ میں مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار محمد الباشا کا کہنا ہے کہ ’حوثیوں کی فاتحانہ ذہنیت ہے۔ یہ سوچ دو دہائیوں پر محیط فتوحات کی وجہ سے قائم ہوئی۔‘

’انھوں نے 2015 سے 2022 تک مزاحمت دکھائی ہے۔ انھوں نے سعودی قیادت میں اس اتحاد کا مقابلہ کیا جو صنعا میں عالمی حمایت یافتہ حکومت کا قیام چاہتا تھا۔‘

نومبر 2023 کے وسط سے حوثیوں نے علاقائی اہمیت کی حامل آبنائے باب المندب سے گزرنے والے بحری جہازوں کو میزائلوں اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔

اس کا مقصد حماس کی حمایت میں اسرائیلی تعلق رکھنے والے ہر تجارتی بحری جہاز کو نشانہ بنانا تھا۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جب تک اسرائیل غزہ میں جنگ بند نہیں کرے گا یہ حملے جاری رہیں گے۔

جب یمن کے بحیرۂ احمر کے ساحل کے قریب ان جہازوں کے ساتھ امریکی اور برطانوی جنگی جہاز بھی آنے لگے تو حوثیوں نے اپنے حملوں کا رُخ اُن کی طرف موڑ دیا۔

محمد الباشا کہتے ہیں کہ ’یہ حوثیوں کی فاتحانہ سوچ اور فخر کی عکاسی کرتا ہے۔۔۔ گروہ کے کچھ رکن خدا کی طرف سے مداخلت کی امید کرتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے جیت انھی کی ہو گی۔‘

سنی اکثریتی ملک یمن میں حوثی شیعہ اسلام کے زیدی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ یمن کی 15 فیصد آبادی کا حصہ ہیں مگر وہ خود کو ملک کے اصل حکمران سمجھتے ہیں۔ تو ان کا باقی آبادی سے کیا فرق ہے؟

’حوثیوں میں جنگی جنون ہے، وہ تشدد کرنے والے اور ظالم ہیں‘

یمن کے سابق برطانوی سفیر ایڈمنڈ فٹن براؤن کہتے ہیں کہ حوثیوں میں جنگی جنون ہے اور وہ ظالم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے عدن اور تعز میں ان کے ظالم کے واقعات کے بارے میں معلوم ہے۔ حوثی خود کو (زیدی فرقے میں) ایلیٹ میں بھی ایلیٹ سمجھتے ہیں۔ مرکزی اور جنوبی یمن میں وہ سنی شہریوں پر تشدد کرتے ہیں: وہ مذاق میں بھی سنائپر تعینات کر کے معصوم شہریوں کو قتل کر سکتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کی سربراہی میں یمن میں خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ سعودی عرب یمن کے بے دخل کیے گئے حکمرانوں کی میزبانی کرتا ہے۔ اس نے یمن کے ساتھ جنگ بندی کا ایک کمزور معاہدہ کر رکھا ہے۔

ایڈمنڈ فٹن براؤن کو حوثیوں کے ساتھ مذاکرات کا تجربہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت مشکل کام تھا۔‘

’وہ مشکل اور خطرناک ہیں۔ ان کا رویہ اچانک بدل سکتا ہے۔ وہ نخریلے ہیں، کبھی دیر سے آتے ہیں اور کبھی بھی اٹھ کر جا سکتے ہیں۔ وہ وی آئی پی سلوک چاہتے ہیں اور ان کے پاس ہر وقت قات موجود ہوتا ہے (یمن میں کئی لوگ تمباکو نوشی کے لیے یہ پتے چباتے ہیں)۔ قیام امن کی بات چیت کے دوران انھوں نے اپنے میزبان کو پریشان کیے رکھا تھا۔‘

جب سے حوثیوں نے بحری جہازوں پر حملے شروع کیے ہیں، امریکہ اور برطانیہ نے ان کے اڈوں پر فضائی بمباری کی ہے۔ صنعا میں حکومتی ہدایت پر بڑے پیمانے پر مغرب مخالف مظاہرے ہوئے ہیں۔

اہم سوال یہ بھی ہے کہ مگر حوثیوں کو ان کے ملک میں کتنا پسند کیا جاتا ہے؟

الباشا کہتے ہیں کہ ’حوثیوں نے شمالی یمن میں امریکہ، برطانیہ اور سعودی اتحاد کی غیر ملکی فورسز کی مخالفت کی ہے جبکہ اس نے غزہ کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ اس سے انھیں مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود موجودہ یمن میں تقسیم ہے۔ شمال مشرقی یمن، مارب، تعز اور جنوبی علاقوں میں حوثی مخالف مزاحمت موجود ہے۔ یہ بظاہر مشکل ہے کہ حوثی ’صاف و شفاف الیکشن‘ میں فتح حاصل کر سکیں۔

فٹن براؤن کہتے ہیں کہ حوثی خوف پھیلا کر لوگوں کو مرکز میں مظاہرے کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ’وہ احتجاجی مظاہرہ رکھتے ہیں، اس دن کام سے چھٹی کا اعلان کرتے ہیں، واضح کرتے ہیں کہ لوگوں کی شرکت ضروری ہے۔ کئی لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے جو بے روزگار ہیں اور اس طرح وہ آمدن حاصل کرتے ہیں۔ جن علاقوں پر ان کا کنٹرول نہیں وہاں انھیں پسند نہیں کیا جاتا۔‘

دریں اثنا حوثیوں کی طرف میزائل حملے جاری رہتے ہیں۔

حوثیوں کے پاس ڈرونز اور دیگر ہتھیار کی بے انتہا مقدار ہے جو وہ بحری جہازوں پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بڑی تعداد ایران کی طرف سے چھوٹی کشتیوں یا عمان کی سرحد سے صحرا کے راستے آتی ہے۔

اس لڑائی کا خاتمہ کیسے ہو گا؟

بہت کم امکان ہے کہ حوثی ہار مانیں گے۔ فٹن براؤن کہتے ہیں کہ ’وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے۔‘

’اگر (غزہ میں جنگ بندی ہوتی ہے) تو وہ اعلان فتح کر سکتے ہیں۔ وہ دعویٰ کریں گے کہ انھوں نے اہداف حاصل کر لیے۔ اگر ایران کو لگا کہ حوثیوں کی کارروائیاں ایران کو خطرے میں ڈال رہی ہیں تو اس کا اثر و رسوخ حوثیوں کو روکنے کے لیے کافی ہو گا۔‘

ابھی کے لیے جنوبی بحیرۂ احمر کی لڑائی میں کسی کی جیت نہیں ہوئی۔

حوثی فوجی دباؤ کے باوجود اپنے حملے نہیں روک رہے۔ ان کے ایک، ایک کر کے میزائلوں کے اڈوں کو امریکی فضائی بمباری میں تباہ کیا جا رہا ہے۔

واضح ہے کہ ان کے پاس بڑی مقدار میں اسلحہ موجود ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے مقامات کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ مغربی جنگی جہاز گرا سکیں۔

جنوبی بحیرۂ احمر اور خلیف عدن مستقبل میں دنیا کے خطرناک ترین حصوں میں سے ایک رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں