بھارت: کیا انتخابات کی وجہ سے مسلم مخالف جذباتی ایشوز میں اضافہ ہو رہا ہے؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا افتتاح، گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت سمیت دیگر حالیہ اقدامات کے یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ کیا پارلیمانی انتخابات کے آتے آتے اس قسم کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا۔

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی میں استاد اور سینئر تجزیہ کار پروفیسر اپوروانند کے مطابق ایسے واقعات کو انتخابات کے تناظر میں تو دیکھا ہی جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ انتخابات کے بعد بھی چلے گا۔

ان کے بقول ’مسلم و اسلامی شناخت کو مٹا کر ہندو شناخت کو فروغ دینا حکمراں جماعت کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔‘

ہندو تنظیموں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ تاریخ کی غلطیوں کی اصلاح چاہتے ہیں اور ہندو برادری عدالتوں کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کر رہی ہے۔

ان کے بقول ہندو کسی کے مذہبی مقام کو جبراً چھین نہیں رہے اور نہ ہی دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو اپنی عبادت گاہوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔

گھنٹی نصب کرنے کی درخواست

دریں اثنا گیان واپی مسجد معاملے میں ہندو فریقوں نے وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ مسجد کے تہہ خانے میں جہاں پوجا ہو رہی ہے، گھنٹی نصب کرنے کی اجازت دی جائے۔

انتظامیہ مسجد کمیٹی کے ایک وکیل اخلاق احمد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ہندو فریقوں کی جانب سے گیان واپی مسجد کے معاملے میں تقریباً دو درجن درخواستیں عدالتوں میں داخل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب سے عدالت نے پوجا کی اجازت دی ہے۔ دن میں پانچ بار یعنی صبح کے تین بجے، دن میں دو بجے، چار بجے، پانچ بجے اور رات میں نو بجے پوجا کی جاتی ہے۔

ان کے مطابق کاشی وشوناتھ مندر کی انتظامیہ کی جانب سے مقرر پجاری پوجا کرتا ہے جب کہ عقیدت مندوں کا رش رہتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب کوئی مقدمہ داخل ہوتا ہے تو اس کی مالیت کی بنیاد پر اسے کسی عدالت میں بھیجا جاتا ہے۔ پوجا کا مقدمہ 25 دسمبر کو سینئر ڈویژن سول جج کے یہاں داخل ہوا تھا۔ لیکن سماعت سے قبل ہی ہندو فریقوں نے اسے ضلعی جج اے کے وشویش کی عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست دی۔

ان کے بقول مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی لیکن ضلعی جج نے ان کی درخواست پر توجہ نہ دے کر اس مقدمے کو اپنے یہاں طلب کر لیا اور پوجا کی اجازت کا فیصلہ سنا دیا۔ حالاں کہ تیکنیکی بنیاد پر ان کو اسے سننے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ عدالت کے فیصلے یا فاضل ججوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اس صورت میں توہینِ عدالت کا معاملہ بن سکتا ہے۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جسٹس اے کے وشویش نے مسلمانوں کی کسی بھی درخواست پر کوئی مثبت رویہ ظاہر نہیں کیا۔

بنارس کے ایک سینئر صحافی اور سماجی کارکن محمد عتیق انصاری کا کہنا ہے کہ سومناتھ ویاس سال میں ایک بار وہاں جاتے تھے اور تہہ خانے سے بلی نکال کر مسجد کے باہر پنڈال لگا کر پوجا کرتے تھے اور شام کو تمام اشیا تہہ خانے میں رکھ دی جاتی تھیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تہہ خانے میں ٹوٹی مورتیاں پائے جانے کی جو بات کہی جا رہی ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسجد کے پاس کئی دکانیں ہیں جن کے ہندو کرائے دار تھے۔ وہ مورتیوں کا کاروبار کرتے تھے اور ٹوٹی مورتیاں تہہ خانے میں موجود ملبے میں ڈال دیتے تھے۔

عتیق انصاری کے مطابق پوجا کی اجازت دیے جانے کے روز وہاں ہندو عقیدت مندوں کی بہت زیادہ بھیڑ اکٹھی ہو گئی تھی۔ وہاں باہر ہندو مذہب کے مطابق کیرتن وغیرہ ہونے لگا۔ اس کے بعد سے اب تک وہاں بڑی تعداد میں ہندو پہنچ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کاشی وشوناتھ مندر میں پوجا کے لیے آنے والے ہندو عقیدت مند اندر جا کر پوجا کرتے ہیں اور انھیں اندر ہی اندر تہہ خانے کے باہر تک جانے کا راستہ دے دیا گیا ہے۔

‘خدشہ ہے کہ کہیں مسجد ہی ہندوؤں کے حوالے نہ کر دی جائے’

فیصلے نے مسلمانوں میں غم و غصہ کے ساتھ ساتھ مایوسی بھی پیدا کی ہے۔ ان کے مطابق فیصلے کے بعد آنے والے جمعے کو گیان واپی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے مسلمان بڑی تعداد میں پہنچے۔ لیکن ایسا انتظام کیا گیا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح یکے بعد دیگرے ہندوؤں کے حق میں فیصلے سنائے جا رہے ہیں، اس بات کا اندیشہ ہے کہ عدالت کسی روز گیان واپی مسجد بھی ہندوؤں کے حوالے کر دے گی۔

ادھر شری رام جنم بھوٹی تیرتھ شیترا کے خازن گووند دیو گری مہاراج کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ ہندوؤں کے حوالے کر دیں تو وہ باقی دیگر چیزیں بھول جائیں گے۔ خیال رہے کہ ہندووں کا دعویٰ ہے کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ کرشن کی جائے پیدائش ہے۔

اس پر ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ مسلمان ایک بھی مسجد ہندوؤں کے حوالے نہیں کریں گے۔

اسی درمیان مغربی اترپردیش میں باغپت کی ایک عدالت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج نے ایک 53 سال پرانے ’لکش گرہ۔مزار‘ معاملے میں پیر کو ہندو فریق کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور متنازع 108 بیگھہ زمین ہندووں کے حوالے کر دی۔

سول جج شیوم دویدی نے مسلمانوں کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ متنازع عمارت بدر الدین کا مقبرہ ہے۔ مقبرے کے پاس قبرستان بھی ہے۔ اس تنازعے میں پہلی بار 1970 میں میرٹھ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔

ہندووں کا دعویٰ ہے کہ وہاں ہزاروں سال قبل مہا بھارت کے دور کے ثبوت پائے گئے ہیں اور جسے مسلمان مقبرہ بتاتے ہیں وہ دراصل لکش گرہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں