روس کے اپوزیشن رہنما اور صدر پوٹن کے ناقد الیکسی نوالنی جیل میں ہلاک

ماسکو (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/وی او اے) روس میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ناقد اور اپوزیشن رہنما 47 سالہ الیکسی نوالنی جیل میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

روس کی فیڈرل پریزن سروس نے اپنے بیان میں کہا کہ جمعے کو سیر کے بعد نوالنی کی طبیعت خراب ہو گئی جس کے بعد طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ایمبولینس پہنچی تاہم وہ جانبر نہیں ہو سکے۔ تاحال الیکسی نوالنی کی ٹیم نے ان کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔

نوالنی وسطی روس کے ولادیمیر خطے میں قائم جیل میں اپنی 19 سالہ قید گزار رہے تھے۔ انھیں روس میں شدت پسندی پھیلانے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی اور جس جیل میں ان کی موت ہوئی ہے وہاں انہیں دسمبر میں منتقل کیا گیا تھا۔

الیکسی نوالنی کے حامی انہیں ماسکو سے 1900 کلومیٹر دور شمال مشرق میں ’یمالو نینتس اٹونومس ڈسٹرکٹ‘ میں قائم جیل میں منتقل کرنے کو بھی ان کی آواز دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران نوالنی روس کے معروف ترین اپوزیشن لیڈر کے طور پر دنیا کے سامنے آئے۔ انہوں نے صدر ولادیمیر پوٹن کے قریبی حکومتی شخصیات کی مبینہ کرپشن کے خلاف اٹھائی تھی۔

نوالنی کو جنوری2021 میں جرمنی سے واپسی پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ اعصاب کو نقصان پہنچانے والے زہر کا علاج کرانے جرمنی گئے تھے جس کے بارے میں ان کا الزام تھا کہ یہ زہر انہیں روس کی حکومت نے دلوایا تھا۔

نوالنی نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں اگست 2020 میں سائبیریا میں زہر دیا گیا تھا۔ اس وقت الیکسی نوالنی سائبیریا سے ماسکو جانے والی پروازکے دوران بیمار ہو گئے تھے۔

یہ طیارہ اومسک شہر میں اترا جہاں نوالنی کو کوما کی حالت میں اسپتال میں داخل کیا گیا۔ دو روز کے بعد انہیں ہوائی جہاز سے برلن لے جایا گیا جہاں وہ صحت یاب ہو گئے۔

نوالنی کے اتحادیوں نے اس واقعے کے فوری بعد یہ کہا کہ انہیں زہر دیا گیا لیکن روسی حکام نے اس کی تردید کی تھی۔

جرمنی، فرانس اور سوئیڈن کی لیبارٹریوں نے تصدیق کی کہ نوالنی کو سوویت دور کے ایک ’نرو ایجنٹ (Nerve Agent)‘ کے ذریعے زہر دیا گیا تھا جسے نووچوک کہا جاتا تھا۔ تفصیل میں معلوم ہوا تھا کہ یہ زہر ان کے زیر جامہ پر لگایا گیا تھا۔

نوالنی جب روس واپس آئے تو اسی ماہ انہیں انتہا پسندی کا قصور وار قرار دیا گیا اور 19سال قید کی سزا سنائی گئی۔ نوالنی کو اس سے قبل بھی 2010 میں مختلف مقدمات میں سزا ہو چکی تھی۔ نوالنی کے بقول انہیں یہ سزا سیاسی محرکات کی بنا پر دی گئی تھیں۔

گرفتاری سے قبل نوالنی حکومتی اہل کاروں کی کرپشن کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ انہوں نے صدر پوٹن کی حکومت کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے منظم کیے اور انتخابات میں بھی حصہ لیا۔

روسی حکومت نے نوالنی کو ہلاک کرنے کی کوشش کے الزامات کی تردید کی تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ نوالنی کو کبھی زہر دیا گیا۔

روس کے حکومت مرکز کریملن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن کو نوالنی کی موت کے بارے میں آگاہ کردیا گیا ہے۔

صدر ولادیمیر پوٹن کے تقریبا ایک چوتھائی صدی پر پھیلے ہوئے اقتدار کے دوران ان کے ناقدین اور مخالفین کے خلاف قتل کی کوششیں عام رہی ہیں۔

ان کوششوں کے متاثرین کے قریبی لوگوں اور بچ جانے والے چند افراد نے اس حوالے سے روسی حکام کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ لیکن ماسکو نے ہمیشہ ایسے الزامات کی تردید کی ہے۔

گزشتہ برس اگست میں صدر پوٹن کے خلاف بغاوت کرنے والے نجی جنگجو گروپ واگنر کے سربراہ یوگنی پریگوزن کی طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بارے میں مبصرین کا کہنا تھا کہ بظاہر طیارہ حادثے میں ہونے کا مقصد روس کی حکومت کے ممکنہ دشمنوں کو واضح پیغام دینا تھا۔

الیکسی نوالنی کا سیاسی کریئر

الیکسی نوالنی ماسکو سے 40 کلو میٹر دور بیوٹن کے علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1998 میں پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 2010 میں ییل سے فیلوشپ مکمل کی۔

نوالنی کو روس میں سیاست میں حصہ لینے والے سرمایہ کاروں کی کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے شہرت ملی۔ انہیوں نے شفافیت کو فروغ دینے کے لیے روس میں تیل اور گیس کمپنیوں کے حصص بھی خریدے۔

انہوں نے کرپشن کے خلاف عوامی سطح پر آگاہی پھیلانے کے لیے ایک پاکٹ بک بھی لکھی جس میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے بارے میں صرف افکار جمع کرنے کے بجائے عملی جدوجہد کی ترغیب دی گئی تھی۔

سن 2013 میں نوالنی کو خورد برد کے ایک کیس میں پانچ برس کی سزا دی گئی جسے انہوں نے سیاسی محرکات کی بنا پر دی گئی سزا قرار دیا تھا۔ نوالنی نے اس سزا کے خلاف اپیل پھی دائر کی تھی۔ بعدازاں حیران کُن طور پر پراسیکیوٹر نے نوالنی کو رہا کرنے کی اپیل کی جس پر ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کردی۔

اس سزا سے ایک دن قبل نوالنی نے ماسکو کے میئر کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔ اپوزیشن نے جیل سے نوالنی کی رہائی کو ان کے حق میں ہونے والے بڑے عوامی مظاہروں کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ یہ رہائی انتخابی عمل کا اعتبار بحال کرنے کی ایک کوشش تھی۔

سن 2015 میں روس کے معروف رہنما بورس نیمتسو کے قتل کے بعد نوالنی اپوزیشن کے مقبول ترین رہنما بن کر ابھرے۔

روس کے طاقت ور صدر جب بھی نوالنی کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا نام نہیں لیتے بلکہ انہیں ’ایک شخص‘ کہتے ہیں یا ان کی اہمیت کم کرنے کے لیے اشارے کنائے میں ان کا ذکر کرتے ہیں۔

نوالنی کے لواحقین میں ان کی بیوی کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی شامل ہیں۔

دنیا کا ردِ عمل

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ اگر یہ خبر درست ہے تو نوالنی کی اہلیہ اور ان کے خاندان کے لیے دلی صدمہ ہے۔

میونخ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نوالنی کی جیل میں ہلاکت اور ان کے خلاف خوف اور دباؤ کے لیے استعمال کیے گئے حربے پوٹن کے تشکیل دیے گئے نظام کی کمزوریوں کا پتا دیتے ہیں۔ روس اس کے لیے ذمے دار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نوالنی کی موت کی تصدیق کی صورت میں ہم دیگر ممالک سے بھی بات کریں گے۔

جرمنی کی وزیرِ خارجہ انالینا بیئربوک نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ نوالنی روس میں آزاد جمہوریت کی سب سے بڑی علامت تھے۔ اسی وجہ سے انہیں مرنا پڑا۔

برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک نے بھی اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ یہ ایک ہولناک خبر ہے۔ روس میں جمہوریت کے بے باک وکیل کے طور پر الیکسی نوالنی نے غیر معمولی ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیرلین نے بھی الیکسی نوالنی کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوٹن سب سے زیادہ اپنے لوگوں کی جانب سے اختلاف سے ڈرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ واقع پوٹن کی حکومت کی حقیقت عیاں کرنے کے لیے ایک یاد دہانی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں مل کر جبر کے خلاف آزادی کے لیے کھڑے ہونے والوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ نیٹو کے سیکریٹری، نیدرلینڈز، بیلجیم، فرانس سمیت یورپی رہنماؤں نے نوالنی کی موت پر ردِعمل میں افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں