امریکہ اپنے جوہری ہتھیار برطانیہ میں واقع بڑے فوجی اڈے پر کیوں منتقل کرنا چاہتا ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ مبینہ طور پر ایک بار پھر برطانیہ کے علاقے ’سففولک‘ میں واقع ہوائی اڈے کو جوہری ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

دستاویزات ظاہر کرتے ہیں کہ برطانیہ کے رائل ایئر فورس کے ’لیکِن ہیتھ‘ اڈے پر جوہری ہتھیار دوبارہ ذخیرہ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق یہاں ذخیرہ کیے جانے والے یہ جوہری ہتھیار دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہیں۔

اس منصوبے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

فی الحال ’سففولک‘ میں واقع امریکی ہوائی اڈے پر امریکی فضائیہ کی ’48ویں فائٹر ونگ‘ تعینات ہے جسے ’لبرٹی ونگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس اڈے پر جدید ’ایف 35 لائٹننگ II‘ طیارے بھی موجود ہیں۔

امریکی فضائیہ کے مطابق یہ ایف 35 طیارے ’B61-12 تھرمو نیوکلیئر بم‘ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دستیاب دستاویزات کے مطابق امریکی وزارتِ دفاع نے ’لیکِن ہیتھ‘ میں دفاعی پناہ گاہیں بنانے کے لیے دیے گئے ٹھیکے کے متعلق معلومات شائع کی تھیں لیکن جلد ہے اِن تفصیلات کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔

یہ موبائل دفاعی یونٹس اس ہوائی اڈے پر تعینات ’48ویں سکیورٹی فورسز سکوارڈن‘ کی حفاظت کے بنائی جائیں گی۔

اس کے علاوہ، امریکی وزارتِ دفاع کی دستاویزات کے مطابق اس اڈے پر جوہری ہتھیاروں کو رکھنے کے لیے ایک خصوصی عمارت کی تعمیر کے لیے لاکھوں ڈالرز مختص بھی کیے گئے ہیں۔

لیکِن ہیتھ میں رائل ایئرفورس بیس سنہ 1941 میں کھولا گیا تھا اور یہ دوسری عالمی جنگ کے دوران آپریشنل رہا تھا۔

سرد جنگ کے دوران جب نیٹو اور سوویت بلاک کے درمیان کشیدگی بڑھی تو سنہ 1951 میں امریکی فضائیہ نے اس اڈے کا انتظام سنبھال لیا تھا۔

اس اڈے پر فی الحال امریکی افواج کے تقریباً چار ہزار اہلکار تعینات ہیں جبکہ لگ بھگ 1,500 امریکی اور برطانوی سویلین عملہ بھی یہاں موجود ہے۔

کیا ’سففولک‘ ایک بار پھر جوہری ہتھیاروں کا گڑھ بننے جا رہا ہے؟

سر لارینس فریڈمن ’کِنگز کالج لندن‘ میں ’وار سٹڈیز‘ (یعنی جنگی علوم) کے اعزازی پروفیسر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسے اشارے ملتے ہیں کہ یہ منصوبہ محض احتیاط کے طور پر بنایا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ یہاں تیاریاں اس لیے کی جا رہی ہوں تاکہ اگر مستقبل میں یورپ میں واقع جوہری ہتھیاروں کے ذخائر سے کچھ ہتھیاروں کو منتقل کرنا پڑے، تو انھیں یہاں رکھا جا سکے۔

سر لارینس کہتے ہیں کہ ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کے لیے اڈے میں خصوصی فیسیلیٹی (عمارت) تعمیر کرنا ایک چیز ہے اور یہ چھپانا کہ امریکی جوہری ہتھیار اب برطانیہ میں رکھے جائیں گے بالکل الگ بات ہے۔ اُن کے خیال میں اس سب معاملے کی کوئی اور وجہ ہو گی نہ کہ اسلحے کی دوڑ میں ڈرامائی اضافہ۔

برطانیہ اور نیٹو کی یہ دیرینہ پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی بھی جگہ پر جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی نہ تو تصدیق کرتے ہیں نہ ہی تردید۔

یہ اس وقت کیوں ہو رہا ہے؟

سر لارینس کی رائے ہے اُن کے خیال میں ان معاملات کا یوکرین کی صورتحال سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق عمومی طور پر روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ہو سکتی ہے۔

ان کے مطابق یہ معاملات روس کی جانب سے مختصر فاصلے کے ہتھیاروں کو دی جانے والی ترجیح کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔

نیٹو کے سابقہ افسر ولیم البرک اب بین الاقوامی ادارہ براِے سٹریٹیجک سٹڈیز سے منسلک ہیں. وہ کہتے ہیں کہ ’یہ روس کے اقدامات کی وجہ سے پورے یورپ میں بڑھتے ہوئے خطرے کے ماحول کا ردعمل ہے۔‘

اپنی بات کی توثیق کے لیے وہ بیلاروس میں روسی جوہری فورسز کی تعیناتی، یوکرین پر حملہ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بڑھتے ہوئے خطرات کا حوالہ دیتے ہیں۔

جوہری ہتھیار لانے سے اڈے پر کیا فرق پڑے گا؟

امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن (فیڈریشن آف امیریکن سائنٹسٹس) کی ہانس کرسٹینسن ان افراد میں سے ہیں جںھوں نے سب سے پہلے رائل ایئرفورس ’لیکِن ہیتھ‘ میں جوہری ہتھیاروں کی واپسی کا امکان ظاہر کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کسی اڈے پر جوہری ہتھیار موجود ہوئے تو روس کے ساتھ جوہری جنگ کی صورت میں سب سے پہلے اس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔‘

تاہم، البرک کہتے ہِں اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ اڈا پہلے ہی روس کے نشانے پر ہے (یعنی جوہری ہتھیاروں کی عدم موجودگی کے باوجود)۔

’اگر میں روسی فوجی منصوبہ ساز ہوتا، تو میں اس کو ضرور نشانہ بناتا۔ اگر آپ روسی ٹیلیویژن دیکھیں تو اس پر برطانیہ کے بارے میں بہت بات کی جا رہی ہے۔ وہاں برطانیہ کو جوہری ہتھیاروں سے نشانہ بنانے کے متعلق کافی بحث ہوتی ہے۔‘

اُن کا خیال ہے کہ روسی صدر پیوتن جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دے سکتے ہیں۔

’یہ کہنا غلط ہو گا کہ وہ (پیوتن) ایسا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔‘

البرک کے خیال میں اگر روسی صدر کو لگا کہ اُن کو اپنے اس اقدام کے نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے تو وہ ایسا کر گزریں گے۔

آگے کیا ہو گا؟

جوہری اسلحے کی تخفیف کی مہم چلانے والی غیر سرکاری تنظیم کمپین فار نیوکلیئر ڈس آرمامینٹ نے اس فوجی اڈے کے باہر مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔

تنظیم کی جنرل سیکریٹری کیٹ ہڈسن کہتی ہیں کہ اگر یہ ہتھیار یہاں موجود ہیں تو ہم انھیں یہاں سے نکال کر ہی رہیں گے۔

اس تنظیم نے ایک قانونی فرم کو یہ جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے کہ آیا جوہری ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی کے لیے امریکی فوجی بیس پر کی جانے والی تعمیرات قانونی ہیں یا غیرقانونی۔

وکیل ریکارڈو گاما کا کہنا ہے کہ برطانوی وزارت دفاع کا مؤقف ہے کہ ’لیکِن ہیتھ‘ میں ہونے والی تعمیرات کے ماحولیات پر منفی اثرات نہیں ہوں گے۔ تاہم گاما کے مطابق، اُن کے مؤکل کا کہنا ہے کہ وزارتِ دفاع جوہری حادثات سمیت ایئر بیس پر جوہری ہتھیار رکھنے سے پیدا ہونے والے ممکنہ ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں