یورپی یونین: ناوالنی کی موت پر روس کے خلاف نئی پابندیاں زیر غور

برسلز (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/ڈی پی اے/اے ایف پی) یورپی یونین نے روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کی موت کے لیے ماسکو کو جوابدہ بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ برسلز یوکرین جنگ کے مدنظر روس پر نئی پابندیاں عائد کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔

انہیں ایک روسی جیل میں پوٹن حکومت نے دھیرے دھیرے قتل کردیا۔‘‘

یہ تھے وہ الفاظ جو یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزیپ بوریل نے روسی اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی سے متعلق کہے، جن کی گزشتہ ہفتے مبینہ طورپر موت کی خبر عام کی گئی تھی۔

یورپی یونین کے وزراء نے پیر کے روز برسلزمیں ناوالنی کی بیوہ یولیا ناوالنیا سے ملاقات کی اور ان کی حمایت کا وعدہ کیا۔ یولیا نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے شوہر کی موت کے لیے روسی صدر ولادی میر پوٹن کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

یورپی یونین نے ایک بیان میں کہا، ”ناوالنی کی غیر متوقع اور چونکا دینے والی موت روس میں تیز رفتار اور منظم جبر کی ایک اور علامت ہے۔ یورپی یونین اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر، روس کی سیاسی قیادت اور حکام کو جوابدہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی اور انہیں اپنے اقدامات کی قیمت چکانے کے لیے مزید پابندیاں عائد کرے گی۔‘‘

بوریل نے ممکنہ پابندیوں کے وقت یا تفصیلات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ تاہم ان پابندیوں میں ناوالنی کی موت میں ممکنہ طور پر ملوث مشتبہ افراد یا اداروں کے اثاثوں کو منجمد کرنا اور ان پر سفری پابندیاں عائد کرنا شامل ہوں گی۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ”ہم کوشش کریں گے اور اس قتل میں ملوث افراد کو شناخت کریں گے۔ یہ آسان نہیں ہے کیونکہ ہمیں روسی معلومات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘‘

روسی اپوزیشن کی مزید حمایت؟

یورپیئن پالیسی سینٹر میں روسی امور کی تجزیہ کار ماریا مارٹیسیوٹ کو خدشہ ہے کہ انفرادی پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ کافی نہیں ہوں گے۔‘‘

مارٹیسیوٹ کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو دوسرے روسی اپوزیشن سیاست دانوں اور ان کے خاندان کی حمایت کرنے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے، جن کا انجام بھی (ناوالنی) جیسا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ”جمہوری ملکوں میں آزادانہ طورپر رہنے اور اپنا کام کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ اور اگر وہ اسے چھوڑنا چاہیں تو انہیں اس کا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔‘‘

جوزیپ بوریل نے کہا کہ کئی رکن ممالک نے پہلے ہی متعدد روسی مخالفین کو سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ یورپی یونین کے ایک اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ یہ بلاک ایسے لوگوں کی اضافی مدد کرتا ہے لیکن روس کے اندر ان کی سلامتی کے مدنظر ان کی تفصیلات کی سختی سے راز داری برتی جاتی ہے۔

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئر بوک نے بھی دیگرسیاسی کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے جذبے کو ہمیشہ کے لیے کبھی بھی خاموش نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا، ”الیکسی ناوالنی حزب اختلاف کی نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے، جو آزادی کے لیے پوری ہمت کے ساتھ کھڑے رہے لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں جو روس میں آزادی کی آوا ز بلند کرنے کی وجہ سے انتہائی ظالمانہ طریقے سے جیلوں میں بند ہیں۔‘‘

روسی اثاثوں کو ضبط کرنے کی تازہ اپیل

مارٹیسیوٹ کا کہنا ہے کہ برسلز یورپی یونین میں منجمد سینکڑوں ارب یورو کے روسی اثاثوں کو ضبط کرکے اور اسے جنگ زدہ یوکرین کو پیش کرکے ماسکو کو ایک بہت بڑا دھچکہ دے سکتا ہے۔

اسٹونیا کے وزیر خارجہ نے بھی اس اپیل کی تائید کی۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”بہترین ردعمل اور سب سے واضح جواب یہ ہوگا کہ ہم آخر کار اپنا کام کریں۔ ہمیں یوکرین کی حمایت کرنی ہوگی۔ ہمیں منجمد اثاثوں کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا، ہمیں انہیں استعمال کرنا ہوگا۔‘‘

اس تجویز پر ایک سال سے زیادہ عرصے سے برسلز کی بیوروکریسی میں غور ہورہا ہے لیکن یہ قانونی رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ یورپی یونین کے ممالک اب ایک متبادل منصوبے پر غور کر رہے ہیں، جس کے تحت غیر منقولہ اثاثوں سے حاصل ہونے والے منافع کو ایک طرف رکھ کر اس رقم کو بعد کی تاریخ میں یوکرین کو منتقل کیا جاسکتا ہے۔ سفارت کاروں کو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس منصوبے کے پہلے قدم کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔

کیا نئی پابندیاں 24 فروری سے نافذ ہوسکتی ہیں؟

یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کے دو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ یورپی یونین کے سفارت کار روس کے خلاف پابندیوں کے تیرہویں دور کو منظوری دینے میں مصروف ہیں۔ اس کے تحت مزید افراد اور اداروں پر نئی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

یورپی یونین اب تک روسی صدر پوٹن سمیت تقریباً دو ہزار تاجروں اور افراد پر سفری پابندیاں عائد کرچکا ہے اور ان کے اثاثے منجمد کر چکا ہے۔

ہنگری، جس نے متعدد مواقع پر یوکرین کی حمایت اور روس پر پابندیوں سے متعلق یورپی یونین کے معاہدوں کو روکا ہے ایک بار پھر نئی پابندیوں کو روکنے کی کوشش کی۔ پیر کے روز ہنگری کے وزیر خارجہ نے ماسکو کے خلاف منصوبوں کی تنقید کی لیکن کہا کہ بوداپسٹ معاہدے کونہیں روکے گا، جس سے اس ہفتے کے اواخر تک اس کی منظوری کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں