اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے حماس کی مالی امداد روکنے کا موقع خود گنوایا، سابق موساد سربراہ

تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیل کے ایک سابق سینیئر انٹیلی جنس افسر نے کہا ہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں حماس کے مہلک حملے سے برسوں پہلے اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے حماس کی مالیاتی امداد کو روک کر اسے بھوکا مارنے کا موقع خود گنوا دیا تھا۔

انٹیلیجنس افسر اُدی لیوی نے بی بی سی کے پینورما پروگرام کو بتایا کہ انھوں نے بنیامین نتن یاہو کو مشورہ دیا تھا کہ وہ حماس کی آمدن کو نشانہ بنائیں۔

ان کا خیال ہے کہ حماس کی آمدن کے بہاؤ پر قدغن لگانے سے گروپ کی فوجی تشکیل میں رکاوٹ پیدا ہوتی لیکن انھیں افسوس ہے کہ ان کی فراہم کردہ انٹیلی جنس پر کارروائی نہیں کی گئی۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے ان الزامات پر اب تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

گذشتہ سال سات اکتوبر کے حملے میں حماس کے مسلح جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں داخل ہو کر تقریباً 1200 افراد کو ہلاک اور 250 سے زائد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ جن میں سے 130 یرغمالیوں کا اب تک کوئی اتا پتا نہیں ہے۔

اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے فوجی کارروائی کی اور غزہ میں حماس کے زیر کنٹرول وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے میں اب تک 29000 لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں کثیر تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔

سنہ 2016 تک اسرائیل کی جاسوس ایجنسی موساد میں اقتصادی جنگ کے سربراہ رہنے والے لیوی کہتے ہیں کہ انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو کئی بار بتایا کہ اسرائیل غزہ پر کنٹرول رکھنے والی تنظیم حماس کو ’صرف مالی وسائل سے‘ کچل سکتا ہے۔

لیوی کا کہنا ہے کہ انھیں نتن یاہو کی طرف سے ان کی تجویز کا کبھی جواب نہیں ملا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ حماس کے مالی معاملات سے نمٹنے میں نتن یاہو کی مبینہ ہچکچاہٹ اور سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے درمیان کوئی تعلق ہے تو اس پر انھوں نے اتفاق ظاہر کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’جی ہاں، بالکل ہے۔ اس بات کا بہت اچھا موقع تھا کہ۔۔۔ ہم غزہ میں جانے والے بہت سارے پیسے کو روک سکتے تھے‘ اور یہ کہ ’حماس نے جو عفریت بنایا وہ شاید ویسا نہیں ہوتا جس کا ہم نے سات اکتوبر کو سامنا کیا۔‘

ادی لیوی کا کہنا ہے کہ حماس کو غزہ کے نیچے سیکڑوں کلومیٹر طویل سرنگیں بنانے اور تقریباً 30,000 فوجیوں کی تنخواہ کے لیے ’لاکھوں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں‘ ڈالرز کی ضرورت تھی۔

انھوں نے سنہ 2014 میں وزیر اعظم نتن یاہو کے ساتھ ایک مبینہ متعدد ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو پر بات کی تھی جس پر اسرائیلی انٹیلی جنس کے مطابق حماس کا کنٹرول تھا اور وہ ترکی سے باہر چلایا جا رہا تھا۔

لیوی کا کہنا ہے کہ نتن یاہو نے ان معلومات پرعمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

حماس اسرائیل کے وجود کے حق کو مسترد کرتا ہے اور اس کی تباہی کے لیے پرعزم ہے۔ اور وہ محض ایک فوجی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک سیاسی تحریک ہے جس کی مالی مدد غزہ سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے۔

ادی لیوی نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے ساتھ اپنی بات چیت کے بارے میں کہا کہ ’ہم نے قطر اور ایران کے اہم سپانسرز ہونے کے بارے میں بات کی۔ کچھ پہلوؤں سے ترکی بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہ حماس کے لیے اپنے مالیاتی ڈھانچے کو منظم کرنے کا ایک اہم مرکز ہے۔‘

پینورما ان دستاویزات کی چھان بین کر رہا ہے جنھیں سنہ 2020 میں حاصل کیا گیا تھا۔ ان دستاویزات کے متعلق یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اس سے حماس کی سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کی حد کا علم ہوتا ہے۔ یہ سنہ 2018 کے اوائل میں ہونے والی آٹھ ماہ کی مدت کا ایک طائرانہ جائزہ پیش کرتے ہیں۔

اسرائیلی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حماس اپنی کچھ رقم کیسے حاصل کرتا ہے۔

ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں تقریباً 40 کمپنیاں ان کے پورٹ فولیو میں شامل ہیں۔ ان ممالک میں سعودی عرب، الجزائر، سوڈان، مصر، خلیجی ممالک اور ترکی بھی شامل ہیں۔

مبینہ سرمایہ کاری میں سڑک کی تعمیر، دواسازی اور طبی آلات سے لے کر سیاحت، کان کنی، سونے کی تلاش اور لگژری ریئل سٹیٹ پروجیکٹس شامل ہیں۔

ان دستاویزات میں درج کمپنیوں میں سے چھ کو امریکی وزارت خزانہ نے سنہ 2022 سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر حماس کی ملکیت یا کنٹرول کے طور پر نامزد کیا ہے اور امریکہ نے پابندیاں لگا کر ان کی تجارت کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔

پورٹ فولیو لیجر میں درج ہر کمپنی کے آگے حماس کے زیر کنٹرول ہر ایک ہولڈنگ کی قیمت درج ہے اور بعض کی مالیت تو لاکھوں ڈالر میں ہے اور اس کی بنیاد پر حماس کے زیر کنٹرول ہولڈنگز کی کل مالیت 422,573,890 امریکی ڈالر بنتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس کا بڑا حصہ ریئل سٹیٹ بزنس سے منسلک ہے۔

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (روسی) میں سینٹر فار فنانشل کرائم اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی ایف سی ایس) کے بانی ڈائریکٹر ٹام کیٹنج کا کہنا ہے کہ جائیداد کی سرمایہ کاری اپنی خود ایک قیمت رکھتی ہے اور اس سے کرائے کی آمدنی کے امکانات بھی ہوتے ہیں اس لیے حماس جیسی تنظیم کے لیے اپنے مالیات کو سنبھالنے کا یہ ایک ’کامل طریقہ‘ ہے۔

امریکہ کی طرف سے جن کمپنیوں پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں سے ایک ٹرینڈ جی وائی او ہے۔ یہ ایک ترک ریئل اسٹیٹ کمپنی ہے۔ سنہ 2018 کی دستاویز میں انڈا ترک کے طور پر کئی بار حوالہ سامنے آتا ہے اور دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک پرانا تجارتی نام تھا اور بعد میں اسے ٹرینڈ کا نام دیا گیا اور استنبول سٹاک ایکسچینج میں اسے چلایا گیا۔

سات اکتوبر کے حملوں یا حماس کے الفاظ میں ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ کو حال ہی میں ٹرینڈ کے سابق چیئرمین حامد عبداللہ الاحمر نے سراہا تھا۔ وہ سنہ 2022 میں مستعفی ہو گئے تھے لیکن وہ ٹرینڈ کی پیرنٹ کمپنی کے سربراہ کے طور پر برقرار ہیں۔

جنوری سنہ 2024 میں استنبول میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھیں سنا جا سکتا ہے کہ ‘ہم مل رہے ہیں۔۔۔ جبکہ آپریشن طوفان الاقصیٰ اپنے عروج پر ہے، یہ ایک سب کچھ بہا لے جانے والا اور گرجدار طوفان ہے جو پیارے فلسطین پر قبضے کو شکست دینے سے پہلے ہرگز نہیں رکے گا۔‘

انھوں نے کانفرنس سے مطالبہ کیا کہ ’صیہونیت کو نسل پرست اور دہشت گرد تحریک کے طور پر گردانے جانے کے لیے کام کریں۔‘

پینورما نے الاحمر کو ان کے اس بیان کی بابت لکھا لیکن کوئی جواب ابھی تک نہیں ملا۔

جبکہ ٹرینڈ کمپنی نے ہمیں بتایا کہ امریکی وزارت خزانہ کے کمپنی اور حماس کے درمیان روابط کے الزامات ’غیر منصفانہ اور بے بنیاد‘ ہیں۔

ترک حکام نے کہا ہے کہ انھوں نے ٹرینڈ کی چھان بین کی ہے اور ہم نے ’اپنے ملک کے مالیاتی نظام کا کوئی غلط استعمال نہیں پایا‘ اور یہ کہ ترکی بین الاقوامی مالیاتی قوانین کی پابندی کرتا ہے۔

بہر حال حماس کے پاس کئی دوسرے طویل مدتی مالی ذرائع بھی ہیں۔

حماس کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے والوں میں سے ایک یحییٰ سنوار رہے ہیں اور وہ اب غزہ میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ ہیں۔ اسرائیل کے مطابق انھوں نے حماس کے لیے اس وقت فنڈز اکھٹے کرنا شروع کیے جب وہ اسرائیلی جیل کوٹھڑی میں قید تھے۔

سنہ 1988 میں سنوار کو فلسطینیوں کے قتل کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا اور ان کے بارے میں شبہ ظاہر کیا گيا تھا کہ وہ اسرائیل کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔

اسرائیل کی سکیورٹی ایجنسی کے ایک سابق افسر میچا کوبی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنوار سے 150 گھنٹے سے زیادہ دورانیے تک پوچھ گچھ کی۔ انھوں نے کہا کہ سنوار جیل سے خفیہ پیغامات بھیج کر ایران کے ساتھ روابط قائم کرنے میں کامیاب رہا تھا۔

سنہ 2007 میں حماس کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملک مصر نے غزہ کی ناکہ بندی سخت کردی۔ ان دونوں ممالک کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں۔ میچا کوبی نے کہا کہ سنوار کے ایرانی رابطوں نے ناکہ بندی کو شکست دینے میں ان کی مدد کی۔

میچا کوبی نے بتایا کہ ’انھوں (سنوار) نے رابطہ شروع کرنے کے لیے ایران میں قاصد بھیجے۔ اور ان سے ہتھیار اور اسلحہ بھیجنے کو کہا اور انھوں نے [حماس] کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرنے پر اتفاق کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ تو بس ابتدا تھی۔‘ موساد کے سابق افسر اُدی لیوی کے مطابق حماس کے لیے نقد رقم ظاہری اور خفیہ طور پر خلیجی ریاست قطر سے بھی پہنچی۔

اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ اس میں سے کچھ رقم اس کی مہربانی سے نقدی میں فراہم کی گئی تھی۔ یہ حماس حکومت کے اہلکاروں کی تنخواہوں کی ادائیگی اور غزہ کے لوگوں کے لیے انسانی بنیاد پر امداد فراہم کرنے کے لیے مختص کیا گیا تھا۔

ادی لیوی کا کہنا ہے کہ ’قطریوں کے پاس ایک خصوصی ایلچی تھا جو ہر مہینے ایک پرائیویٹ جیٹ میں سوٹ کیس کے ساتھ رفح آتا تھا، غزہ میں داخل ہوتا، حماس کو پیسے دیتا، ہیلو کہتا اور واپس چلا جاتا۔۔۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے خیال میں ’اس رقم کا ایک اہم حصہ حماس کے فوجی ونگ کی حمایت‘ کے لیے دیا گيا۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، یورپی یونین، مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی اور متعدد خیراتی اداروں کی جانب سے مزید اربوں ڈالر فراہم کیے گئے تھے۔ اور یہ سب انسانی بنیاد پر کی جانے والی امداد کے تحت دیے گئے تھے۔

روسی کے ٹام کیٹنگ نے اسے ’منصفانہ اندازہ‘ قرار دیا ہے کہ یہ رقم حماس کے عسکری ونگ کو مالی اعانت کے طور پر مل رہے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ رقم (حماس) دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جیسے سرنگیں بنانا، اپنی فوج کو مسلح کرنا۔‘

یہ جاننا ناممکن ہے کہ عطیہ دہندگان کی کتنی رقم حماس نے فوجی مقاصد کے لیے مختص کی ہو گی۔ اگر کوئی رقم ملی ہے تو!

حماس کسی بھی امدادی رقم کو دوسرے کاموں میں منتقل کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس نے پینورما کو بتایا کہ اس کے عسکری ونگ کے پاس آمدنی کے اپنے ذرائع ہیں۔

اسرائیل کے وزیر اعظم فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کے بارے میں واضح رہے ہیں اور اس سٹریٹجک مقصد کے لیے حماس کی فنڈنگ سے متعلق ان کے موقف کو کس طرح جوڑا جا سکتا ہے۔

سنہ 2019 میں نتن یاہو نے اپنی حکمران جماعت لیکود پارٹی کے ساتھیوں سے کہا تھا کہ ’جو کوئی بھی فلسطینی ریاست کے قیام کو ناکام بنانا چاہتا ہے اسے حماس کو تقویت دینے اور حماس کو رقوم کی منتقلی کی حمایت کرنی ہوگی۔۔۔ غزہ میں فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے فلسطینیوں سے الگ کرنا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے۔‘

واشنگٹن ڈی سی میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک میں فلسطینی-اسرائیلی امور کے ماہر اور فلسطین کے سینیئر فیلو خالد الگندی کہتے ہیں کہ فلسطین اور اس کے مغربی کنارے کے حریف فتح کے مؤثر حریف کے طور پر حماس کو مضبوط رکھنے سے ’متحدہ فلسطینی قیادت کے امکان کو روکا جا سکتا تھا تاکہ آپ اس کے ساتھ کسی قسم کے حتمی تصفیے پر بات چیت کر سکیں۔‘

لیکن حال ہی میں نتن یاہو نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ حماس کی تشکیل کرنا چاہتے تھے۔ اس بابت انھوں نے کہا کہ وہ انسانی بحران کو روکنے کے لیے صرف قطری رقم کو غزہ میں جانے کی اجازت دے رہے تھے۔

نتن یاہو نے اب حماس کو تباہ کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غزہ میں دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والا کوئی ’عنصر‘ باقی نہیں بچے گا۔

لیکن غزہ کے اتنے بڑے حصے کو تباہ کر کے اور اتنے فلسطینیوں کو قتل کر کے اسرائیل کو اس کے برعکس ہی کچھ ملے گا۔

ایلگندی کہتے ہیں کہ ’ممکنہ طور پر ایران حماس کو مسلح اور مالی طور پر مدد فراہم کرتا رہے گا۔ لیکن اس سے بڑھ یہ بات اہم ہے کہ جب تک حماس جیسے گروپس کے پاس ان ہتھیاروں، ان وسائل اور ان صلاحیتوں کو حاصل کرنے کی وجوہات موجود ہیں، وہ ایسا کرتے رہیں گے۔ کیونکہ ان کے لیے اس کا جواز، اس کی وجوہات، اپنی جگہ موجود ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں